قلعہ احمد آباد (قلعہ سوبھاسنگھ) پنجاب کی سب سے اہم ترین تاریخی آثارِ قدیمہ میں سے ایک ہے۔کہا جاتا ہے کہ سردار بھاگ سنگھ نامی سردار کے چار بیتے تھے سوبھا سنگھ، میاں سنگھ، دیدار سنگھ۔ ان چاروں بھائیوں نے اپنے اپنے نام سے شہر آباد کیے۔ سب سے بڑے بیتے کا نام سوبھا سنگھ تھا۔ اس کے نام کی مناسبت کی وجہ سے یہ شہر قلعہ سوبھا سنگھ کہلایا۔ شہر میں اب بھی ایک قلعہ کے نشانات ملتے ہیں، اس جگہ آج کل پرائمری سکول واقع ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں یہ شہر موجود تھا۔ اس شہر کے چار بڑے دروازے تھے،جنکے نام اکبری دروازہ، امرتسری دروازہ، پسروری دروازہ، جموں دروازہ تھے۔ امرتسری دروازہ 1920 تک موجود تھا مگر یہ دروازہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ آج کل صرف اکبری گیٹ کے آثار ملتے ہیں۔ جو لاری اڈاہ سے سیدھا ریلوے بازار(پرانا نام ٹھٹھیاری بازار) کے داخلی مقام پر واقع ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں یہ شہر موجود تھا 1857 کی جنگ آزادی کے بعد یہ شہر انگریزوں کی عملداری میں چلا گیا۔ آزادی سے پہلے شہر میں بیشتر سکھ اور ہندو گھرانے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد تمام سکھ اور ہندو یہاں سے ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے۔ اور مشرقی پنجاب سے آنیوالے کئی مہاجر خاندان اس شہر میں آ کر آباد ہوئے۔
8 مارچ 1991 کو قلعہ سوبھا سنگھ کے باسیوں کی خواہش کے مطا بق قصبے کا نام تبدیل کر کے احمد آباد رکھ دیا گیا۔ یکم جولائی 1991 سے قبل یہ ضلع سیالکوٹ کا حصہ تھا مگر اسی دن نارووال شہر کو ضلع کا درجہ ملنے کی وجہ سے اس قصبے کو ضلع نارووال میں شامل کر دیا گیا۔ یہ قصبہ 60 ’16°32 جانبِ شمال، 0’46°74 جانب مشرق اور سطح سمندر سے 240 میٹر(سات سو ستاسی فٹ) بلندی پر واقع ہے۔
جغرافیائی حوالے سے یہ قصبہ پاکستان کے مشرق کی جانب واقع ہے۔ قصبے کے بیچوں بیچ ایک نہر گزرتی ہے، جو شہر میں نکاسی کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس قصبے سے نارووال اکیس کلومیٹر جانب شمال(بشمول ریلوے اور سڑک) واقع ہے۔ پسرور شہر گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر جانب جنوب(بشمول ریلوے اور سڑک)، سیالکوٹ تقریبا چالیس کلو میٹر اور لاہور شہر ایک سو ستائیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ مشہور نالہ ڈیک بھی شمال مغرب کی جانب چار کلو میٹر کے فاصلے پر بہتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق شہر کے آبادی ایک لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہے۔ یہاں پر افغان، کشمیری اور دوسری قوموں کے لوگ ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ اس شہر میں اکثریت بٹ،خواجہ،ڈار، ملک، راجپوت، آرائیں، گوجر،سید، جٹ اور دیگر خاندانوں کی ہے۔ شہر میں پنجابی زبان بولی جاتی ہے تا ہم اردو زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس شہر میں ستانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، مسیحی آبادی 2.40 فیصد ہیں۔ یہ قصبہ دیہاتی اور شہری زندگی کا حسین امتزاج رکھتا ہے۔ لوگ فیشن کو پسند کرتے ہیں، نوجوان جینر اور شرٹ اور شلوار قمیض یکساں پہنتے ہیں، جبکہ بڑے بوڑھوں میں دھوتی کْرتے کا استعمال بھی اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک اور نیشنل کی برانچیں موجود ہیں۔ پولیس اسٹیشن بھی موجود ہے۔
احمد آباد سے لاہور یا اسلام آباد جانے کے لیے ٹرین اور بس وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔ کرایہ سواری پر منحصر ہے اگر آپ ائیر کندیشنڈ گاڑی میں سفر کریں گئے تو لا محالہ کرایہ بھی زیادہ ہو گا۔ اسلام آباد کے لیے گاڑیاں نارووال اور شکر گڑھ سے چلتی ہیں جبکہ لاہور جانے کے لیے گاڑیاں پسرور اور نارووال سے جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ، پسرور، ڈسکہ، گوجرانوالہ اور شکر گڑھ جانے کے لیے لوکل گاڑیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔شہر میں ایک بنیادی مرکز صحت ہے جہاں پر ڈاکٹر اور لیڈی ہیلتھ ورکر کی سہو لت موجود ہے، یہ مرکز صحت تھانہ روڈ پر ریلوے پھاٹک کراس کرتے ہی واقع ہے۔ علاوہ ازیں شہر بھر میں کئی پرائیوٹ کلینک موجود ہیں، جہاں جدید طبی علاج کی سہولت موجود ہے۔لوگوں کی اکثریت دوسرے شہروں (سیالکوٹ وغیرہ) میں مزوری اور نوکریاں کرتی ہے تاہم اکثر لوگوں کا اپنا کاروبار بھی ہے۔ یہاں پر ایک بڑا اور مرکزی بازار موجود ہے جو نا صرف شہر کے لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بھی یہاں سے خریدوفروخت کرتے ہیں۔یہاں پر گندم اور چاول کی فصل زیادہ کاشت کی جاتی ہے۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہاں پر نزدیکی دیہاتوں کے لوگ سبزیاں فروخت کرے کے لیے لاتے ہیں۔
قلعہ احمد آباد کی تاریخ کو زندہ رکھنے میں جہاں تمام سرکاری محکموں کی خدمات قابل تحسین ہیں وہاں پی ٹی سی ایل کا کردار بھی اہم ہے۔ تاریخی حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ پاکستان میں موجود ایک بڑی کارپوریشن اور معروف ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ہے۔ یہ کمپنی صارفین کو ٹیلی فون اور تیز رفتار براڈبینڈ انٹرنیٹ کی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 2005 میں کمپنی کے 26 فیصد شیئر متحدہ عرب امارات کی کمپنی اتصالات کو فروخت کر دیے گئے۔ جس کے نتیجے میں اب اتصالات کمپنی کے انتظامی امور کی نگران ہے۔ لیکن افسوس قلعہ احمد آباد میں پی ٹی سی ایل کی تاریخی خدمات کو ختم کرنے کے لئے کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے پہلے سینکڑوں صارفین سے سروس چھین لی گئی۔
پھر کنکشن دینے کا سلسلہ بند ہو ا اب ایکسچینج سے بھی قیمتی سامان چور ی ہوگیا۔ لگتا یوں ہے کہ چند ماہ بعد یہ بھی تاریخی باب بند ہو جائے گا۔جبکہ گرلز کالج بھی بنایا گیا ہے لیکن آج تک سٹاف نہیں دیا گیا جانوروں کے ہسپتال میں ویٹنیری ڈاکٹر موجود نہیں تعلیم کو عام کرنے کے لیے بوائے کالج کی اشد ضرورت ہے ٹاؤن کمیٹی میں کئی مسائل اور مالی بحران ہیں، دیہی مرکز صحت میں ایکسرے یونٹ فعال کیا جائے جبکہ ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے حکیم عبدالخالق چوہدری صدر قلعہ احمد آباد پریس کلب رجسٹرڈ کی سرپرستی میں مقامی صحافی عارف اے نجمی، رانا شاہد حسین، احسن منصب، طالب حسین، غلام مصطفی باجوہ اور وقاص مہر سمیت تمام پیش پیش ہیں اور وہ قلعہ احمد آباد کے مسائل کو مثبت انداز میں اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ان کو حل کرنے کی ضرورت ہیضرورت اس امر کی ہے کہ شہری قلعہ احمد آباد کی تاریخ یعنی اپنے بزرگوں کی ملکی ترقی کے لئے خدمات نئی نسل میں منتقل کرنے کے لئے صحافی، وکلاء، تاجر، سیاسی و سماجی اور مذہبی رہنما ء اپنا اپنا کردار اداکریں تاکہ قلعہ سوبھا سنگھ سے قلعہ احمد آباد کی تاریخ زندہ رہے سکے۔