تحریر : روہیل اکبر مسلم لیگ ن کی حکومت جمعہ کے مبارک روز 2جون کو پنجاب اسمبلی میں اپنا پانچواں بجٹ پیش کریگی اس سے قبل وفاقی حکومت نے بھی اپنا پانچواں بجٹ پیش کیا تھا مگر ہمارے ہاں اسمبلیوں کے اندر یہ روایت اب جڑ پکڑ چکی ہے کہ اپوزیشن نے وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران بھر پور ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ایجنڈے کے کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھالی جاتی ہیں اور شور اتنا ہوتا ہے کہ وزیرخزانہ کو اپنی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اپوزیشن بنچوں سے کبھی بائیکاٹ، بائیکاٹ کا شور سنائی دیتا ہے تو کبھی گو نواز گو کے نعرے سننے کو ملتے تھے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ بات میں پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ اس بار بجٹ اجلاس میں اپوزیشن زیادہ تیاری سے ایوان میں آئے گی شور ایسا ہوگا کہ سپیکر اور وزیر خزانہ اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگائے رکھیں گے اور اپوزیشن ارکان پوری بجٹ تقریر میں ایک پل کے لیے بھی اپنی ہلڑ بازی کم نہیں کرینگے بلکہ سپیکر کے سامنے آکر بھر پور احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔
بجٹ تقریر کے دوران اکثر لڑائی جھگڑے کا سماں بھی پیدا ہوجاتا ہے اسمبلی کے اندر جاری اس جنگ و جدل کے معرکے کو دیکھنے کے لیے اتنے لوگوں کا رش ہوتا ہے کہ مہمانوں کی گیلری میں سیٹوں سے زیادہ افراد سمائے ہوتے ہیں جبکہ کچھ افراد اوپر صحافیوں کی سیٹوں پر بھی پہنچ جاتے ہیں جبکہ اس لڑائی جھگڑے سے بھر پور بجٹ کا براہ راست کاروائی ملک بھر کے چینلز پر بھی دکھائی جاتی ہے اور پنجاب سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی حیرت اور افسوس سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہے ہوتے ہیں اسمبلی کے اندر ٹھنڈے موسم میں شدید گرما گرمی کا ماحول ہماری عوام پر کیا اثر ڈالتا ہوگا اسکا اندازہ شائد کسی پارلیمنٹیرین کا نہیں ہوگا کیونکہ ان میں سے تو اکثر ایسے زمیندار ،وڈیرے اور جاگیر دار ہیں جو صرف الیکشن کے چند دنوں میں اپنے حلقوں کا رخ کرتے ہیں بعد میں وٹروں کی انہیں پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی ووٹر بیچارے ان تک پہنچ سکتے ہیں کچھ اراکین اسمبلی تو ایسے ہیں جن کی حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ڈیوٹی لگی ہوتی ہے کہ انہوں نے خوب بولنا ہے جبکہ زیادہ اراکین ایسے ہیں جو صرف ایوان میں حاضری لگانے آتے ہیں جنہوں نے نہ کبھی کوئی سوال کیا نہ قرارداد جمع کروائی اور نہ ہی کبھی پوائنٹ آف آرڈر لیا۔
ایسے اراکین ڈیسک بجانے اور کبھی کبھار شور شرابہ میں حصہ لینے کا کام ضرور سرانجام دیتے ہیںیہ شور شرابہ صرف پنجاب اسمبلی میں ہی نہیں ہوتا بلکہ سندھ ،بلوچستان اور کے پی کے سمیت مرکز میں بھی ہوتا ہے بلکہ پچھلے دنوں پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن کی قومی اسمبلی کے اندر پٹائی بھی ہوگئی تھی اور جب اسحاق ڈار صاحب نے بجٹ پیش کیا تو اس وقت بھی قومی اسمبلی میں اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور اب صدر مملکت نے قومی اسمبلی میں اپنا خطاب کیا تو اس وقت بھی اپوزیشن نے شور شرابہ کرکے ایوان کو مچھلی منڈی بنائے رکھا اگر ہم اپنے اندر صبر وتحمل کا مادہ پیداکرلیں اور خاص کرایسے مواقع پر جب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جارہا ہو یا صدر مملکت اپنا سالانہ خطاب فرمارہے ہوں تو اس وقت خاموشی سے انہیں سنا جائے احتجاج تو سارا سال چلتا ہی رہتا ہے مگر یہ دو مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ جب پوری دنیا میں بیٹھے ہوئے پاکستانی اسمبلی کی اس کاروائی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر ایسے وقت اپوزیشن کے اراکین ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال رہے ہوتے ہیں نعرے بازی کی انتہا ہوئی ہوتی ہے اور جمعہ کے روز بھی پنجاب اسمبلی میں کچھ ایسا ہی ہوگا جیسے ہی وزیرخزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث بجٹ تقریر کرنے کے لیے ڈائس پر آئیں گی اسی وقت اپوزیشن کے اراکین اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوکر گو نواز گو کے نعرے لگانا شروع کر دینگے۔
جبکہ حکومتی بنچوں پر بیٹھی ہوئی خواتین جن کا کام صرف نعرے لگانا ہی ہے وہ رو عمران رو کے نعرے لگا کر ایوان کو سر پر اٹھا لیں گی حکومتی بنچوں اور اپوزیشن بنچوں سے ایسا شور بلند ہوگا کہ وزیرخزانہ کی تقریر کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوگی پنجاب اسمبلی اراکین کا ایسا کھاڑا ہے جہاں فری سٹال میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے بعض اوقات بات گالم گلوچ تک بھی جاپہنچتی ہے اس فری اسٹائل بے عزتی پروگرام میں سپیکر کا کردار بھی بڑا اہم ہوتا ہے جو اکثر حکومتی اراکین کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اوراوقات ایسی بات کرجاتے ہیں کہ جسکا کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔
کمالیہ سے رکن پنجاب اسمبلی احسن ریاض فتیانہ نے اپنے ایک سوال کے جواب پر جب ضمنی سوال پوچھا تو پارلیمانی سیکریٹری اسکا تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس پر سپیکر صاحب نے احسن فتیانہ کو عجیب منطق پیش کی کہ میں اگر آپ کو کہوں کہ اپنے ہاتھ کی انگلی کے بال بتاؤ کتنے ہیں جس پر ایوان میں ایک قہقہہ گونجا اور پھر بات آئی گئی ہوگئی بلکل اسی طرح بجٹ پر بھی گرما گرم بحث ہوگی اپوزیشن کی طرف سے دھوے دار بیانات داغے جائیں گے اور پھر چند دنوں بعد بجٹ کی بات بھی آئی گئی ہوجائے گی کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے اپوزیشن اراکین خاموشی سے بجٹ تقریر سنیں اس کے بعد جب اس پر بحث ہو تواس میں بھر پور طریقے سے حصہ لیں اپنا جمہوری اور پارلیمانی حق استعمال کرتے ہوئے ملک اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اچھی اچھی تجاویز دیں اور حکومت کو بھی چاہیے وہ اپوزیشن کی طرف سے موصول ہونے والی اچھی تجاویز پر عمل کرے نہ کہ انہیں انگلیوں کے بال گننے پر لگا دیں۔