پنجاب اسمبلی سے جرائم پیشہ گروہوں تک

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
بتایا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ پوری قوم کی حمایت سے لڑی جارہی ہے ۔ بلاامتیاز احتساب سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہترہوگا اور مسلح افواج آئندہ نسلوں کے لئے ہر بامقصد کوششوں کی مکمل حمایت کریں گی۔ کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے بغیر ملک میں دائمی امن اور استحکام نہیں آ سکتا۔ ملکی یکجہتی، استحکام اور خوشحالی کے لئے ہر سطح پراحتساب ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے پاک فوج مکمل تعاون کرے گی۔ پاکستان کی سالمیت اور ترقی کیلئے بلاامتیاز احتساب ضروری ہے ۔ پاکستانی قوم کو اعتماد ہے کہ عدلیہ اور پاک افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں ایماندار افسر اپنا وعدہ پورا کرینگے۔

دوسری جانب پاکستان کی تاریخ گواہ ہے ۔سیاستدانوں ،پولیس اہلکاروں پر ہمیشہ سے یہ الزام رہاہے کہ انہوں نے جرائم پیشہ افرادکو جنم دیااوربرس ہا برس سے ہزاروں گروپس ” قبضہ گروپ،ڈکیت گروپ ،پٹواری گروپ، درباری گروپ ،بھکاری گروپ ،منشیات گروپ،ٹرانسپورٹ گروپ ،یونین کونسل سیکرٹری گروپ وغیرہ وغیرہ ”کو پالنے میں مصروف ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام گروپس کو پالنے کا مقصد صرف اور صرف لوٹ مار ،کرپشن اور غریب عوام پر حکمرانی قائم رکھناہے۔ صر ف پنجاب میںایک ہزار سے زائد جرائم پیشہ گروپ موجود ہیں جن کو پولیس اہلکاروں سمیت سابق اور موجود ممبر ان قومی وصوبائی اسمبلی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما ئوں کی براستہ حمایت حاصل ہے۔تقریبا1ارب روپے روزانہ کرپشن ،چوری،ڈکیتی سمیت دیگر واقعات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ان تما م لوگوں کا بلاامتیاز احتساب کئے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

اس کی سب سے بڑی مثال چھوٹو گینگ ہے جس کو پالنے اور پھر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کرنے کے بعد پنجاب پولیس اور صوبے کے سیاسی حکمرانوں نے بالآخر فوج کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور اسے مجرموں کے اس خطرناک گروہ کا خاتمہ کرنے کے لئے ٹاسک دے دیا گیا ہے ۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے آٹھ برس صرف کئے ہیں۔چھوٹو گینگ 200 افراد پر مشتمل مجرموں کا گروہ ہے ۔ گزشتہ دہائی کے دوران وہ ایک مقامی ایم پی اے کا سکیورٹی گارڈ تھا اور اس دوران پولیس ٹائوٹ کے طور پر بھی کام کرتا رہا تھا۔ البتہ 2007 کے بعد سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے پر تیار ہو گیا۔

لیکن سوال پید ا ہوتاہے کہ ۔راجن پور سے 4 ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ، جن میں ایک صاحب ڈپٹی سپیکر بھی ہیں جن سردار شیر علی گورچانی ہیں۔”پی پی ۔ 247راجن پور ۔ Iسردارعلی رضا خان دریشک۔پی پی ۔ 250 راجن پور ۔ IV سردار عاطف حسین خان مزاری۔پی پی ۔ 249 راجن پور ۔ III سردار نصراللہ خان دریشک۔پی پی ۔ 248 راجن پور ۔ IIسردار شیر علی گورچانی”شامل ہیں۔
مبصرین اور ماہرین کا کہاہے کہ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اگر ایسے ہی ممبران صوبائی وقومی اسمبلی کے کردار سامنے آتے ہیں جو سانحات کے بعد چند ماہ کے لئے اپنے عہدے سے ”معطل” رہ کر پوری شان سے دوبارہ اسی عہدے پر واپس آ جاتے ہیں تو دوسری طرف کئی گینگ پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے سے ناانصافی ، بدعنوانی اور بدانتظامی و نااہلی کا خاتمہ کرنے کے لئے بزعم خویش خود قانون اور منصف کا روپ دھار لیتے ہیں اور اپنے ہر جرم کو انصاف کے حصول کا نام دیتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

ملک میں اگرچہ کوئی ایک آدھ شخص ہی قانون شکنی کی اس انتہا کو پہنچا ہے جو غلام رسول چھوٹو کے حصے میں آئی ہے ۔ لیکن ہمارے اردگرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو سیاستدانوں کی کمزوری ، بدعنوانی اور سماج کی برائیوں کا علاج یوں تجویز کرتے ہیں کہ ہر چوک میں پھانسی گھاٹ نصیب ہو اور ذرا سا قصور کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔

اسی لئے ملک میں موت کی سزا بحال کرنے کے ایک سال بعد جبکہ پاکستان دنیا میں پھانسی دینے والے ملکوں میں دوسرا نمبر حاصل کر چکا ہے ۔حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ موت کی سزا کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح میں 28 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ قلم یہ لکھتے ہوئے کانپتا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ چھوٹو نے اپنے علاقے میں رحم اور حسن سلوک کے طرز عمل سے لوگوں کو اپنی ڈھال بنایا ہے ۔ وہی اصول معاشرے اور سماج میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیس ہو یا انتظامیہ ، وہ جب تک ظلم اور ناانصافی کی علامت بنی رہے گی، لوگ اس سے دور بھاگتے رہیں گے ۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ