تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 24 فروری کو پنجاب اسمبلی نے تحفظ ِ خواتین بِل منظور کر کے”کھڑاک” کر دیا اور سارے علماء لنگوٹ کَس کر میدان میں اُتر آئے۔ مولانا فضل الرحمن تو شدید غصے میں پائے گئے۔ شکر ہے کہ وہ اِس صدمے سے بیمار نہیں ہوئے اور کم ازکم اِس قابل تورہے کہ اپنے چاہنے والوں سے خطاب کر کے اپنا غصہ نکال سکیں۔ اُنہوں نے کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں گفتگو کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں بیٹھے سارے مردوں کو ”زَن مرید” کہہ دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ پنجاب اسمبلی نے اتنا لمبا چوڑا بِل پیش کر کے اپنا وقت بھی ضائع کیا اور عوام کا بھی۔ وہ صرف ایک لفظ یعنی ”زَن مرید” کو پاس کروا لیتے تو بات بن جاتی۔ مولانا صاحب کے اِس فرمان پر پنجاب اسمبلی کے اراکین بھی طیش میں آ گئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، ٹھک سے مولانا کے خلاف تحریکِ استحقاق جمع کروا دی جس میں یہ لکھا گیا کہ اُن کا استحقاق مجروح ہوا ہے اِس لیے مولاناصاحب معافی مانگیں ورنہ ۔۔۔۔ ورنہ ظاہر ہے کہ وہ صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں گے۔
ویسے مولانا صاحب سے دست بستہ سوال ہے کہ تحفظ ِ خواتین بِل میں کون سی بات غیراسلامی یاغیرشرعی لکھ دی گئی جس پروہ اتنا ”تَپ” گیے کہ پنجابی مردوںکو سیدھا ”زَن مرید” ہی کہہ ڈالا ۔ہمارادینی علم ناقص ہی سہی لیکن اتناتو ہم بھی جانتے ہیں کہ دینِ اسلام نے ہی سب سے پہلے خواتین کے حقوق متعین کیے اور مردوں کو اُن پرعمل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا ”اِس بِل کا مطلب یہ ہواکہ اگرہماری بہن بیٹی آدھی رات کوگھر واپس آئے تو باپ یا بھائی اُسے پوچھ نہیں سکتا اوراگر کوئی عورت کوئی غلطکام کررہی ہوتو مرد کا پوچھنا قانون کی خلاف ورزی ہوگی ”۔ہم نے اِس بِل کی تہہ میں اُتر کر دیکھا اورتلاش کر کر کے تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے لیکن ہمیں تو بِل میں ایسی کوئی شے نظر نہیں آئی جس کی طرف مولانانے اشارہ کیا۔اب ہوسکتا ہے کہ یہ مولانا صاحب کی ذہنی اختراع ہویا پھر خود ساختہ تشریح ۔ویسے ہمارے حضرت مولانافضل الرحمن ہیں بڑے ”حضرت” اور مَن مانی تشریحات میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔
Maulana Fazlur Rehman
شاہ محمد اویس نورانی نے عالمِ غیض میں کہا ” پنجاب اسمبلی نے بے شرمی وبے حیائی کے قانون کوپاس کرکے اسلام مخالف قوانین کی نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ہر رکنِ اسمبلی اِس گناہ میںبرابر کا شریک ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو پنجاب اسمبلی کے اراکین کو صرف ”زَن مرید” کہنے پرہی اکتفاکیا لیکن اویس نورانی صاحب نے تواُن پربے شرمی وبے حیائی کا ”ٹھَپہ” بھی لگادیا ۔ہوسکتاہے کہ اب پنجاب اسمبلی کے ارکان سَرجوڑکر اُن کے خلاف بھی تحریکِ استحقاق کامتن تیار کر رہے ہوں۔
ویسے محترم اویس نورانی کا”فتویٰ” حاصل کرنے کے لیے اُن سے دست بَستہ یہ سوال توکیا جاسکتا ہے کہ کیابے شرم وبے حیاایسے مردقرار دیئے جانے چاہییں جو عورت کوپاؤں کی جوتی ،اُن پرتشدداور گالی گلوچ اپنی مردانگی کاجزوِ لاینفک اوراُن کو”نصف بہتر”کی بجائے ‘نصف بَدتَر” سمجھتے ہیں یاپھر ایسے مردجو تحفظِ نسواںکی خاطراسمبلی میںبِل پاس کرتے ہوئے عورتوںپر تشددکو سیرتِ طیبہۖ کی صریحاََ خلاف ورزی سمجھتے ہیں ؟۔اصل بے شرمی وبے حیائی تویہ ہے کہ عورت کو کمزور سمجھ کراُس پرتشدد کیاجائے ،اُسے جہیزنہ لانے کے طعنے دیئے جائیں ،زندہ جلادیا جائے اوراپنی جائیداد کی تقسیم بچانے کے لیے اُس کی قُرآن سے شادی کر دی جائے۔
جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم نے کہا” مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے حصول کے لیے آئین وسنت کے خلاف بِل پیش کیاگیا ۔غیور پاکستانیوں کوکلمہ کے نام پربننے والے ملک میں غیر اسلامی قوانین کسی صورت قابلِ برداشت نہیں۔ ایک توہ مارے ہاں یہ رسمِ بَدچل نکلی ہے کہ بات کوئی بھی ہو ،ہم اُس کا تعلق” مغربی آقاؤں کی خوشنودی ” سے ضرور جوڑتے ہیں۔ایک دفعہ شیطان نے بھی ”تَپ” کر کہا تھا:
مجھ کو ہنسی آتی ہے اِس حضرتِ انسان پر فعلِ بَد تو خود کرے اور لعنت کرے شیطان پر
بیچارے ”انگریزوں” کو ”کَکھ” پتہ نہیں ہوتا اور ہم ”ٹھَک” سے ساراالزام اُن پر دَھردیتے ہیں۔ہم مفتی محمد نعیم صاحب کے تبحرِعلمی کے قائل بھی ہیں اور متاثر بھی۔ مفتی صاحب نے بالکل بجاکہا کہ تحفظِ خواتین بِل کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج کرشرعی فیصلہ لے لیاجائے ۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ”شریعت کی جانب سے خواتین کوجو حقوق دیئے گئے ہیںاُن کی پاسداری کی جائے توتشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا” ۔عرض ہے کہ جھگڑے کی بنیادی وجہ تویہی ہے کہ آج کے دَورکا مرد عورتوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا چاہتا ہے جو دَورِ جاہلیت کے مَردوں کا خاصہ تھا۔
Approves Women Protection Bill
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بِل ایسے مردوں کے لیے بنایا گیا ہے جو آج بھی چودہ سوسال پہلے کے دَورِ مشرکین میں بَس رہے ہیں جہاں بیٹی کی پیدائش کو گالی سمجھا جاتا تھا اور اُسے زندہ دفن کردینا روایت ۔اگرسارے مرد عورت کے شرعی حقوق کی پاسداری کرتے توپھر ایسا بِل لانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ دست بستہ عرض ہے کہ ہم ایسے قانون پہ ہزار بار لعنت بھیجتے ہیں جوہمیں دینِ مبیں سے دور کر دے۔شخصی آزادی کے نام پرمادرپدر آزادی کے خلاف ہم کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکے اور نام نہادNGO’s کی خواتین کے غیرشرعی وغیر اسلامی رویے کے بارے میں بھی متعدد بار لکھا۔ہماری جنگ تواُنہی شرعی حقوق تک محدود ہے جودینِ مبیں کا تقاضہ ہے ،مادرپِدر آزادی کی نہیں۔
چیئرمین علماء کونسل علامہ طاہرمحمود اشرفی نے کہا” پنجاب اسمبلی سے پاس کیے جانے والے قانون میں مرد کو تضحیک اور مذاق بنا دیا گیا ہے۔جبر کی بنیاد پر چلایا جانے والا نظام خاندانی اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔اِس قانون سے خاندانوں کے اندر تصادم بڑھے گااور صلح کے راستے بندہو جائیں گے۔سمجھ سے بالاتَرکہ علامہ صاحب نے کیا سوچ کریہ کہہ دیا ”مردکو تضحیک اور مذاق بنادیا گیا ہے۔ کیا مرد صرف اُسی صورت میں نشانۂ تضحیک سے بچ سکتے ہیں جب وہ عورتوں پر بے جاظلم وتشدد روار کھیں؟۔ کیااپنی مردانگی کا وحشیانہ اظہارنہ کرنے والے مردوں کو ”زَن مرید” کہہ کر اُن کی تضحیک کرنا مناسب ہے۔۔
وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگراِس بِل پر اُس کی اصل روح کے مطابق عمل کروادیا جائے توخاندانوںکے اندرپیار ومحبت کی فضاء بھی پروان چڑھے گی اور صلح کے سارے دَربھی کھل جائیں گے لیکن ایساہوتا نظر نہیں آتاکہ ہمارے ہاں”اَشک شوئی” کے لیے قانون توبن جاتے ہیں ،عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ویسے بھی 70 فیصد سے زائد خواتین تو دیہاتوں میں رہتی ہیں،اُن بیچاریوں کو کیاپتہ کہ آئین وقانون کِس بَلا کا نام ہے۔رہی شہروں میں بسنے والی پڑھی لکھی خواتین کی بات ،تووہ توخود ہی ”ڈنڈی پَٹی” قائم ہیں کہ بیچارے مردوں کو آگے لگایا ہوا ہے۔اُنہیں تو ایسے قانون کی ضرورت ہی نہیں۔ حرفِ آخریہ کہ اگریہ بِل مردوں کو عورتوں کے وہی شرعی حقوق دینے کا پابند بناتا ہے جو دینِ مبیں کا تقاضہ ہیں اور سیرتِ طیبہۖ کے عین مطابق توپھر اِس بِل پر کسی کواعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں خواہ وہ کوئی مفتی یاعالمِ دین ہی کیوں نہ ہو۔