پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماہی پروری کی ناقص کارکردگی اور اربوں روپے کی کرپشن کے خلاف شدید احتجاج کیا ‘ صوبائی وزیر بھی سوالوں کے جواب دینے کے بجائے معاملہ عدالت پر ڈالتے رہے جبکہ صوبائی وزیر ملک محمد آصف بھاہ کے عجیب و غریب جواب پر اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اراکین بھی قہقے لگاتے رہے ۔سوموار کے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت کے بجائے ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی تاخیر سے قائمقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں منعقد ہوا اور اجلاس میں صوبائی وزیر ملک محمد آصف بھاہ نے محکمہ جنگلات ، جنگلی حیات و ماہی پروری کے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے تاہم سوالوں کے جوابات درست نہ ہونے اور محکمے میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کے ذمہ داروں کی عدم گرفتاری اور لکڑی چوری کے واقعات میں اضافہ پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور صوبائی وزیر نے 15سے زائد سوالوں کے جوابات دینے کے بجائے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کا کہتے رہے اور صوبائی وزیر ایوان کو محکمے کے پراسکیوٹر نام بھی نہ بتا سکے جبکہ بعض سوالوں کے جواب اتنے عجیب و غریب رہے کہ ایوان حکومتی اور اپوزیشن اراکین قہقے لگاتے رہے جبکہ راحیلہ انور کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہاکہ چڑیا گھر لاہور کا رقبہ 25 ایکٹر پر محیط ہے۔
جہاں پر باہر سے منگوائے جانے والے جانوروں کی تعداد 62جبکہ کل جانور وں کی تعداد 538ہے اور نایاب جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے قریب رکھا جاتا ہے اور جانوروں کو جوڑے کی شکل میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی افزائش نسل جاری رہے ۔جماعت اسلامی کے سید وسیم اختر کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہاکہ جو لوگ وائلڈ لائف ایکٹ 2007کے دائرہ اختیار میں نہ آنے والے پرندے پکڑتے یا انہیں فروخت کرتے ہیں ان کے خلاف محکمہ کی جانب سے کارروائی کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والوںکو تقریبا ایک سال کے دوران 13لاکھ روپے کے قریب جرمانے بھی کئے گئے ہیں۔ سعدیہ سہیل رانا کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر آصف بھاہ نے کہاکہ پنجاب کے 37اضلاع میں 47ہزار 307ایکٹر پر محکمہ جنگلات کی جانب سے جنگلات لگائے گئے ہیں اور پنجاب میں محکمہ جنگلات کا کوئی رقبہ لیز پر ہے اور نہ ہی لیز کے ذریعے کوئی سالانہ آمدنی ہو تی ہے محکمہ جنگلات کا رقبہ سوائے شجر کاری اور کسی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا ۔شیخ علائو الدین کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ملک آصف بھاہ نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد جنگلی حیات کے متعلق تما م امور صوبائی دائرہ اختیار میں ہیں تاہم وزارت خارجہ حکومت پاکستان برادر اسلامی ممالک کے سربراہان کو تلور کے شکار کیلئے ایریا مختص کرکے دعوت نامے جاری کرتی ہے۔
تاہم ان کو باقاعدہ شکار کیلئے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا جاتا اور گذشتہ پانچ سالوں کے دوران غیر قانونی شکار پر 18ہزار 359افراد کا چالان کیا گیا جن میں سے 12ہزار 902پر عدالتی فیصلہ سامنے آیا اور مجموعی طور پر جرمانے کی مد میں 2کروڑ 80لاکھ 30ہزار 995روپے جرمانہ وصول کیا گیا ۔ایک اور سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب میں جنگلات کی شرح کا تناسب کل رقبے کا 3.1فیصد ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران اراکین اسمبلی درختوں کی چوری کے مقدمات اور ریکوری کی مد میں رقم کے حوالے سے دی جانے والی تفصیلات پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ جنوری 2012ء میں لاہور اور اور سفاری پارک میں رانی کھیت کی بیماری سے سفار ی زو لاہور میں 60مور اور فزنٹ ہلاک ہوئے تھے جن کی مالیت 204542روپے تھی ۔ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ صوبہ پنجاب میں 1.62ملین ایکڑ رقبہ پر جنگلات موجود ہیں ۔ محکمہ جنگلات نے درختوں کی چوری روکنے کے لئے فاریسٹ ایکٹ 1927میں ترامیم کر کے 2010ء میں نیا ایکٹ منظور کرایا تھا جس میں جنگل چوروں کی سزائوں میں اضافہ کیا گیا اور اسکے علاوہ ضابطہ فوجداری کے تحت پرچہ بھی درج کرایا جاتا ہے ۔ وقفہ سوالات کا وقت ختم ہونے پر حکومتی رکن اسمبلی شیخ علائو الدین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میرے سوالات کو جان بوجھ کر آخر میں رکھا جاتا ہے۔
Mian Mujtaba Shuja-ur-Rahman
رکن اسمبلی کے احتجاج پر ڈپٹی اسپیکر نے انکے سوالات کو ملتوی کرتے ہوئے دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت کر دی ۔صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں بجلی کے بحران کا خاتمہ ‘امن وامان کا قیام حکو مت کی اولین تر جیح ہو گی ‘چولستان میں 100 میگا واٹ کے سولر پاور پلانٹ پر کام کا عنقریب آغاز ہونے والا ہے’بہت جلد اس منصوبہ کا آغاز کر دیا جائے گا’ بتدریج آنے والے سالوں میں اس سولر پارک کے ذریعے 1000 میگا واٹ بجلی پید ا کی جائے گی’ حکومت پنجاب نے 6اضلاع میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے’اگلے مالی سال میں ان منصوبوں پر خاطر خواہ پیش رفت متوقع ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پر ی بجٹ بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے لئے یہ اعزاز ہے کہ ہم اس ایوان کے پری بجٹ سیشن کا آغاز کر رہے ہیں ‘پری بجٹ اجلاس کی روایت ہم نے ہی اپنے سابقہ دور حکومت میں شروع کی تھی ‘ تاکہ آئندہ سال کے مالی بجٹ کو عوامی نمائندگان اور عوامی امنگوں کے مطابق بنایا جا سکے۔ پچھلے پانچ سالہ دورمیں ہمارے ملک کی معیشت بدسے بد تر ہوتی جاری تھی ۔ اس پس منظر میں پاکستان کے عوام نے وفاق اور پنجاب کی سطح پر ہم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
رواں مالی سال کے دوران ہماری حکومت نے معاشی حالات کی بہتری کے لیے متعدد اصلاحات کیں ۔ جس کے نتیجے میں الحمداللہ آج حکومت پنجاب کے مالی وسائل پہلے کی نسبت بہتر ہیں۔ تا ہم اب بھی ہمیں باہمی مشورے اور عوامی آرا ء کی روشنی میں متعدد اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکیں۔ ہمارے صوبے کے 80فیصد وسائل وفاقی محاصل سے ہوتے ہیں ۔ پچھلے سال کی نسبت وفاقی حکومت نے اس سال اپنے محاصل میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت پنجاب نے بھی اپنے ٹیکسوں اور دیگر محاصل میں بہتر وصولی کی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہمارے پاس نسبتا زیادہ وسائل موجود ہیں۔ حکومت پنجاب نے وزیراعلی کے بجٹ اجلاس میں کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے انتظامی اخراجات میں اس سال پندرہ فیصد کٹوتی کی۔ جس کے مثبت اثرات بھی خزانے پر مرتب ہوئے ہیں۔ پہلے سے بہتر معاشی حالت کے باوجود ہمیں درپیش چیلنچز کو معاشی حکمت عملی کے متقاضی بنانا ہے ۔ہمارے ملک کو درپیش امن و امان کے حالات ہماری معیشت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ لہذا اس سال حکومت کو ایک خطیر رقم پولیس اور امن و امان کے اداروں پر خرچ کرنا پڑی ہے جو کہ اگلے مالی سال میں بھی متوقع ہے ۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اور عوام کے تعاون سے جلد از جلد امن و امان کی صورت حال میں بہتری لا سکیں تاکہ معیشت صیحح معنوں میں ترقی کر سکے ۔ آئندہ مالی سال کا ترقیاتی پروگرام بھی حکومت کی موجودہ اقتصادی و معاشی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر ہی تشکیل دیا جائے گا۔ جس میں غربت میں کمی ، روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی ، سماجی شعبہ جات مثلا تعلیم ، صحت ، صاف پانی کی فراہمی، فنی تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ، صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ، خوراک ، پانی اور انرجی کی صورت حا ل کو بہتر بنانا ، پرائیویٹ سیکٹر کی تمام شعبوں میں شراکت کی حوصلہ افزائی ، علاقائی توازن اور خواتین کی ترقی کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمار ی یہ کوشش ہو گی کہ آئندہ مالی سال میں جاری شدہ منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنائیںاور مختص شدہ وسائل بہتر طریقے سے خرچ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال میںسالانہ ترقیاتی پروگرام 2014-15تین سالہ MediumTerm Development Framework (MTDF) منصوبہ کا حصہ ہو گا۔ جس میں پہلے سال یعنی 2014-15کیلئے سکیموں کا باقاعدہ اندراج ہو گا جبکہ باقی دو سالوں کیلئے اہداف مقرر کئے جائیںگے۔ اگلے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2014-15میں جاری سکیموں کو مکمل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ رقوم مختص کی جائیںگی جو منصوبہ جات 70فیصد مکمل ہو چکے ہیں ۔ ان کو 100 فیصد مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی۔
Government Of Pakistan
اسی طرح پچھلے سالوں کے نامکمل منصوبہ جات جو کسی وجہ سے ADPمیں شامل نہ ہو سکے کو بھی ADPمیں شامل کیا جائے گا تاکہ پہلے سے کی گئی سرمایہ کاری ضائع نہ ہواور منصوبوں کو مکمل کرکے بروئے کار لایا جا سکے ۔ عوامی نمائندں کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے متعلقہ شعبہ جات میں فنڈ ز مختص کئے جائیںگے جو منصوبہ جات بیرونی امداد کے تحت شروع کئے گئے ہیں ‘ وہ لازمی طور پراے ڈی پی میں شامل کئے جائیں گے ۔ سماجی بہبود کے شعبہ جات مثلا تعلیم ، صحت ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی وغیرہ کیلئے خاطر خواہ رقوم مختص کی جائیںگی تاکہ حکومت اپنے اصلاحی منصوبوں کی تکمیل کر سکے۔ حکومت کی ترجیحات کے مطابق کم ترقی یافتہ اضلاع کو ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لانے کیلئے خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ خاص طور پر وہ اضلاع جہاں بنیادی سہولتوں کی کمی ہے ۔ مثلا جنوبی پنجاب ‘ چولستان اور بارانی علاقوں کی ترقی کیلئے بھی ترجیحی بنیادوںں پر فنڈز مہیا کئے جائیںگے۔