تحریر: فہیم افضل ہم یہ جانتے ہیں کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان کی زیادہ تر سرحد ایران اور افغانستان سے ملتی ہے یہ مسلم حقیقت ہے کہ بلوچستان کے معدنی ذخائر سے پاکستان چل رہا ہے ہمارے ملک کی زیادہ تر فیکڑیاں آج گیس پر ہی چل رہی ہیں جبکہ گھریلو زندگی کا دارومدار بھی گیس پر ہی ہے اس اعتبار سے بلوچستان کو پاکستان کا دل کہنا غلط نہ ہو گا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے دشمنان پاکستان صوبہ بلوچستان پر اپنی نظر یں گاڑے بیٹھے ہیں جو استحصال زدہ بلوچ قوم کو اکسا کر پاکستان مخالف لڑنے پر آمادہ کر رہے ہیں اس مقصد میں ہمارا روایتی دشمن بھارت پیش پیش ہے سیاسی بیان ہوں یا راء کی سرگرمیاں بلوچستان ہمیشہ سے ہی بھارت کا ہدف رہا ہے تاکہ معدنی ذخائر سے مالا مال اس خطے میں انتشار و جنگ مسلط کرکے ملک پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنایا جا سکے بہت دور کی بات نہیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں منتخب حکومت کو ختم کر دیا جس سے بلوچستان کے حالات کافی بگڑ گئے وہاں بغاوت نے جنم لیا یہی موقع تھا۔
جب دشمن اندرونی ناچاقی کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکتا تھا بس یہیں سے بلوچ قوم پرستوں میں بغاوت کی چنگاری کو ہوا دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندر ہی باغیوں کا گروہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگا انہیں حالات پر قابوپانے کیلئے پاکستان آرمی اور بلوچ باغیوں میں مسلسل پانچ برس 1973-1978 جنگ چھڑی رہی جس کے نتیجہ میں ناصرف پاکستان بلکہ پاک فوج کو نقصان اٹھانا پڑا یہ جنگ کسی نہ کسی طرح جاری رہی دشمن ہمیشہ سے ہی اپنی عیاری سے کام لیتے ہوئے نالاں ،افغانیوں اور بلوچوں کو استعمال کرتا رہا جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوتے رہے یہ جنگ 2006 ء میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد شدت اختیار کر گئی اور دہشتگردی کی یہ کاروائیاں مخصوص مشن تک محدو د ہو گئیں جو آج تک جاری و ساری ہیں۔
بلوچستان کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کے ذمہ دار ہمارے سیاسی حکمران ہیں جنہوں نے اس علاقے کے محروم عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی اقدامات نہ کئے ہیں ہر سیاسی حکمران کے دور میں بلوچستان کو ہمیشہ سے ہی نظر انداز کیا گیا جس وجہ سے پاکستان کا یہ صوبہ اول تو تعلیم سے محروم رہا جبکہ صحت و دیگر شعبہ جات میں بھی اس صوبے میں کوئی قابل ذکر کام نہ ہواسیاسی اقتدار کی ہوس اور بے حسی بنیادی طور پر اس صوبے میں اشتعال انگیزی کا باعث بنی اگر بلوچستان کا موازنہ پاکستان کے کسی بھی صوبے سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعمیر و ترقی کے لحاظ سے یہ صوبہ دوسرے صوبوں سے کافی پیچھے ہے اسی معاشرتی محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے وہاں بسنے والے باشندوں کو دولت و مراعات کا جال پھینک کرپھانس لیا جس کا بھر پور فائدہ بی ایل اے و دیگر قوم پرست لیڈروں نے اٹھا یا اب غور طلب موضع یہ نہیں کہ کون ،کس طرح ، کس کو استعمال کر رہا ہے ؟ اصل بات تو یہ ہے کہ اس صوبے کو کیا۔
Quetta Incident
اس کا حق دیا گیا ؟ کیا اس صوبے کی عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے گئے ؟ کیا بلوچستان کے عوام کو دیگر صوبوں کی طرح بمطابق میرٹ نوکریاں فراہم کی گئیں ؟ کیا دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں تعلیمی سہولیا ت دی گئیں ؟ یقینا ان سوالات کے تناظر میں استحصال کی در انگیز داستاں ہمارے سامنے آئے گی گذشتہ تقریباً چار سال نے ن لیگ وفاق میں حکومت سنبھالے بیٹھی ہے جس کا منظور و منشور صرف پنجاب تک ہی محدود ہے جو پنجاب میں ڈویلپمنٹ کے اربوں روپے کے منصوبے لا چکی ہے سیکورٹی کے حوالہ سے پنجاب بھر سیف سٹی پلان متعارف کروایا گیا۔
پنجاب میں اربوں روپے کی لاگت سے غیر ضروری منصوبے ،میٹر و بس ، اورنج ٹرین وغیرہ شروع کئے گئے جس کی میں سمجھتا ہوں عوام کو ضرور ت ہی نہ تھی موجود حالات میں بلوچستان کی صورت حال کے پیش بلوچستان حساس اور اہم ترین صوبہ ہونا چاہئے تھا مگر سیاسی تعصب کی وجہ اس صوبے کو نظر انداز ہی کیا گیا جس کادہشتگروں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور پے در پے اپنی کاروائیاں کرتے ہوئے ہزاروں پاکستانیو ں کو موت کی نیند سلا دیا ہر دہشتگردی کی کاروائی پر ہمارے مذمتی بیانوں کے بعد ایک مکمل خاموشی ہی دیکھنے میں آئی جبکہ دہشتگردوں نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کو اپنا اولین حد ف بنائے رکھا حملے پر حملہ ہزاروں جانیں گئیں مگر ہماری وفاقی حکومت کے کانوں پر جوں تک رینگی میں پرانی بات نہیں کرتا ہے۔
میں تو رواں سال بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کی بدترین کاروائیوں کا ایک سلسلہ رقم کر رہا ہوں تاکہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی عوام پر عیاں ہو سکے 4 جنوری 2016 کو بی بی ننائی کے قریب پولیس چیک پوسٹ حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں د و پولیس اہلکار شہید ہوئے ،8 جنوری کو ملتانی محلہ مسجد کے باہر دو پولیس اہلکاروں مشتاق اور واجد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ،13 جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائیٹ ٹائون میں خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میںتیرہ پولیس اہلکار ،ایک ایف سی اہلکار اور سویلین جاں بحق ہوئے جبکہ اس دھماکے میں پچیس کے قریب افراد شدید زخمی ہوئے ،18 جنوری کے ایف چیک پوائنٹ کوئٹہ پر دھماکہ ہوا جسمیں چھ ایف سی اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوا۔
28 جنوری کو منیرمینگل روڈ کے قریب منی گیس سٹیشن پر مامور چار پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا ،6 فروری کو ملتان روڈ کوئٹہ پر ایک خود کش حملہ میں چار ایف سی اہلکار وں سمیت بارہ افراد لقمہ ء اجل بنے جبکہ 38 افراد زخمی ہوئے ،3 مئی کو فدائی حملہ میں مشرقی بائی کوئٹہ پر چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ،9 مئی کو بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ گیت کے باہر دھماکے میں 5 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ،26 مئی کو ائیر پورٹ کے باہر دھماکے میں تین پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 32 کے قریب افراد زخمی ہوئے ،3 اگست کو رموٹ کنڑول بم دھماکے میں تین افراد زخمی ہوئے ،کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے بد ترین خود کش حملہ سول ہسپتال کوئٹہ میں 8 اگست کو ہوا جسمیں 72 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے اسکے فوراً بعد 11 اگست روڈ دھماکے میں 14 افراد زخمی ہوئے ،13 ستمبر کو پولیس ٹریننگ سنٹر سریاب کوئٹہ میں خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور تقریبا 10 کے قریب شدید زخمی ہوئے ،جس کے بعد باچا خاں یونیورسٹی ،پھر حال میں ہونے والی پولیس ٹریننگ سنٹر پر دہشتگروں کی بد ترین کاروائی جسمیں تقریبا 61 کے قریب پولیس اور ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔
Terrorist Attacks
ابتدائی روپورٹ میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ پولیس ٹریننگ سنٹر کی بیرونی دیواریں کچی تھیں اور اس وقت ڈیوٹی پر صرف ایک ہی اہلکار مامور تھا جسے تین دہشتگردوں نے با آسانی نشانہ بنا یا اور پھر ٹریننگ سنٹر میں گھس کر اہلکاروں پر فائرنگ کر انہیں شہید کر دیا اب یہاں صاف نظر آتا ہے کہ گڈ گورننس کے جھوٹے دعویدار سیکورٹی اداروں کو ہی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں جن سے عوام اپنی حفاظت کی توقع رکھتی ہے حملہ چاہے پولیس ٹریننگ سنٹر چوہنگ لاہور پر ہو یا کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر ایک بات تو طے ہے کہ دشمن کا ہدف صرف اور صرف ہمارے ہسپتال ،تعلیمی ادارے اور فورسز کے ٹریننگ سنٹر ہیں جبکہ بلوچستان کا شہر کوئٹہ دشمنوں کی ہٹ لسٹ پر ہے جنوری سے کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے مگر سیاست دان نیند کی گولی لئے سوئے ہوئے ہیں یکے بعد دیگرے دہشتگردوں کے حملے نے بھی انہیں خواب غفلت سے بیدا ر نہ کیا یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ہمارے حکمرانوں نے بے شرمی کی چادر اوڑھ رکھی ہے جو روایتی صوبائی امتیاز کے پیش نظر صرف اور صرف منظور نظر صوبے پر ترقیاتی منصوبوں کی چھایہ کیئے ہوئے ہیں اگر اب بھی ہماری حکومت کی ترجیح بلوچستان کی بجائے پنجاب ہی رہی تو اندیشہ ہے کہ بلوچستان کہیں ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
نیشنل ایکشن پلان ، سیف سٹی منصوبہ جات کی اشد ضرورت فی الفور بلوچستان اور کوئٹہ کو ہے حکمران بس مذمتی بیانوں تک محدود ہیں جو اپنی آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسو لئے صرف اور صرف عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں داراصل حقیقت تو یہ ہے کہ صوبائی و علاقائی تعصب کے بھنور سے ہمارے حکمران ابھی تک نہ نکل پائے ہیں اپنے ووٹوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں پر یہ سمجھوتے ایک بہت بڑی زیادتی ہے سانحہ ٹریننگ سنٹر کوئٹہ بلوچستان کیلئے کوئی نئی بات نہیں بلکہ بلوچستان میںانسانی جانو ں کا یہ کھیل دہائیوں سے جاری ہے مگر بحثیثت حکمران ہمارے حکمران کیا اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں ؟ کیا بلوچستان کو اب بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عقلمندی ہے ؟ سوال جتنے بھی ہوں حکومت وقت کیلئے جواب صرف اور صرف ایک ہی کہ پنجاب کو چھوڑو بلوچستان کی فکر کرو وگرنہ تمہارے پاس ماسوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں رہے گا۔