لاہور (جیوڈیسک) صوبہ پنجاب کا بجٹ وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمان نے پیش کیا جس کا کل حجم 1044 ارب 90 کروڑ روپے ہے۔ جو گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں 16.4 فیصد زیادہ ہے۔
وفاق سے صوبے کو ملنے والے حصے کے تحت 844 ارب 70 کروڑ روپے ملیں گے۔ صوبہ اپنے ذرائع سے 213.9 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرئے گا جبکہ خسارہ 58 ارب 55 کروڑ روپے ظاہر کیا گیا ہے۔
صوبے کے جاری اخراجات کا تخمینہ 700 ارب روپے لگایا گیا جس میں صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر 345 ارب روپے خرچ ہونگے۔ فیصل آباد میٹروبس کے لئے 50 کروڑ اور ملتان میٹرو کے لئے 10 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے صوبہ اپنے وسائل سے 31 ارب روپے استعمال کرئے گا جو گزشتہ سال سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ صوبے میں امن وامان کے لئے 113 ارب خرچ کئے جائیں گے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاق کی طرح صوبائی حکومت نے بھی مزدور کی کم از کم اجرت 12 ہزار روپے مقرر کی ہے۔ صحت عامہ کے لئے 121ارب روپے جبکہ تعلیم کے شعبے کے لئے 274 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت جنوبی پنجاب کی اکتیس فیصد آبادی کے لئے چھتیس فیصد ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر جنوبی پنجاب کو ایک سو انیس ارب روپے دئیے جائیں گے۔ وزیر خزانہ پنجاب مجتبیٰ شجاع الرحمن کے مطابق آئندہ مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح پانچ فیصد رکھی گئی ہے۔ ملکی تاریخ کی پہلی میٹرو ٹرین لاہور میں چلے گی جس کے لئے آئندہ بجٹ میں بیس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ راولپنڈی میٹروبس منصوبے کے لیے دس ارب باون کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
فیصل آباد میٹروبس کے لیے پچاس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ملتان میٹروبس کےلیے دس ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جو میٹرو بس کے تمام منصوبوں سے طویل ہو گی۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بجٹ دستاویزات سے ختم کر دیا گیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کےلیےسینتس ارب اکہتر کروڑ روپے کے غیرملکی قرض اور امداد لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
نشتر گھاٹ کےمقام پر پل تعمیر کیا جائے گا۔ طلبا کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کئے جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے سال 2014-2015 کے فنانس بل کے تحت کیے گئے نئے اقدامات سے ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی میں 58 ارب اضافی حاصل کرنے کی تجویز ہے جس میں 1590 سی سی سے 1990 سی سی تک کی درآمدی گاڑی پر 20 ہزار۔ 1990 سے 2990 سی سی تک گاڑی پر 25 ہزار روپے لگژری ٹیکس لیا جائے گا جبکہ 2990 سی سی سے زائد کی گاڑی پر 35 ہزار روپے ٹیکس لیا جائے گا اور یہ ٹیکس صرف ایک مرتبہ ہی وصول کیا جائے گا جبکہ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس میں بھی بیس سے چالیس فیصد تک ٹیکس میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
دو کنال سے بڑے گھر جس میں تعمیر شدہ رقبہ چھ ہزار مربع فٹ سے زیادہ ہو ان سے اڑھائی لاکھ روپے فی کنال جبکہ آٹھ کنال یا اس سے زیادہ کے ایسے گھر جن کا تعمیر شدہ رقبہ بارہ ہزار مربع فٹ ہو ان سے تین لاکھ روپے فی کنال ٹیکس لینے کی تجویز ہے۔
خدمات کے شعبے میں آٹو ورکشاپ، صنعتی مشینری کی ورکشاپ، الیکٹرک اور الیکٹرونکس ورکشاپ، کمپیوٹر ورکشاپ اور کار سروس اسٹتیشنز سے سولہ فیصد ٹیکس لینے کی تجویز ہے۔ کمیشن ایجنٹس سے سولہ جبکہ کال سنٹرز سے ساڑھے انیس فیصد ٹیکس لینے کی تجویز دی گئی ہے۔
پتھالوجی کے علاوہ کام کرنے والی لیبارٹریز سے سولہ فیصد، ہیلتھ کیئر سنٹرز، جم فٹنس سنٹرز، لانڈریز اور ڈرائی کلینرز پر بھی سولہ فیصد سیلز ٹیکس ہو گا اس کے علاوہ کیبل ٹی وی آپریٹرز، ٹی وی یا ریڈیو پروگرام پروڈیوسرز اور پروڈکشن ہاؤسز پر بھی سولہ فیصد کی شرح سے یہ ٹیکس لگے گا جبکہ اخبارات، میگزین اور ہر قسم کے جریدے میں کلاسیفائڈ سمیت ہر قسم کے اشتہارات پر پانچ فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔