وزیراعلیٰ پنجاب کا عدل و انصاف

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے چندسال قبل ایک تقریب میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے اور جہاد کا حلف لے لیا اور کہا کہ خون کے آخری قطرے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔خاموش تماشائی بنے رہنا اب ممکن نہیں، میں نے اپنی زندگی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وقف کر دی۔ وعدہ کرتا ہوں معصوموں کے اوپر ہونے والے ظلم کا حساب لیں گے۔سفاک درندوں نے بچوں کا خون بہا کر ہمارے جسم میں چنگاریاں بھر دیں، دہشت گرد اپنے بھیانک انجام سے بچ نہیں سکیں گے، دہشت گردوں کیلئے پاک سرزمین تنگ کردی جائے گی، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم کا تعاون ناگزیر ہے، قوم کے اوپر اٹھنے والے ظلم کا حساب ہم سب کو چکانا ہے۔

چوریاں ،ڈاکے اور قوانین کی خلاف ورزی کے ہزاروں واقعات معمول کی بات ہے ۔لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے جو قوم سے وعدہ کیا وہ پور کردیا۔شہری خوش بھی ہیں۔لیکن چند سرکاری ملازمین نے بھی قسم کھارکھی ہے کہ وزیراعلیٰ ہراچھااقدام کو تباہ کردیں گے ۔پولیس ملازمین ،ریونیو’’پٹواری‘‘ حضرات سر فہرست ہیں۔گزشتہ چند روزقبل ایک پروین نامی بیوہ خاتون جس کا تعلق ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں پھونڈ (اسلام پورہ) سے ہے ۔ وہ قبضہ گروپ کیخلاف وزیر اعلیٰ شکایات سیل میں اپنی فریا دلیکر پہنچی تو ڈائریکٹرشکایات بشیراحمد گوندل نے فوری پولیس کو کاروائی کاحکم جاری کردیا۔ متاثرین کا پولیس الزام ہے کہ جب اس درخواست تھانہ صدرپسرور کے انسپکٹر اسامہ کے پاس پہنچی تو اس نے کاروائی کرنے کی بجائے خاتون کو ڈریا دھمکایا اور کہا کے یہ درخواست فوری واپس لے لو ورنہ آپ کیخلاف ایسی کاروائی کرونگا کے زندگی بھر یادرکھوگی ۔آئند زند گی میں وزیراعلیٰ شکایات سیل جانے کی جرات بھی نہ کرنا۔بہتر کہی ہوگا۔خاموش ہو جاؤ۔انصاف کے چکر میں زندگی سے جاؤگی ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس خاتون کا انصاف ملے گا یا نہیں ۔؟ اس کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔

Justice

Justice

مبصرین کا کہنا ہے کہ عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔اسلام میں عدل و انصاف بہت اہم مسئلہ ہے۔ وہ اصول جو کبھی بھی کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں رہا ’’عدل و انصاف‘‘ ہے۔ عدل و انصاف پیغمبروں کا ہدف و مقصد اور اسلامی انقلاب کا نصب العین رہا ہے۔ انسانی حقائق اور ماہیت، زمانہ بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ ابتدائے تاریخ سے اب تک عدل و انصاف انسانوں کے لئے پسندیدہ چیز رہی ہے اور انہیں ہمیشہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔

ہمارا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہ ہماری خواہش ہے۔ کوششیں اور کام اس وقت با ارزش اور اہم بنتے ہیں جب قیام عدل کے تناظر میں انجام پائیں۔ اگر معاشرے میں مساوات نہ ہو تو دولت کی فراوانی عوام کے کسی مخصوص طبقے اور گروہ تک محدود رہے گی۔ لیکن جس معاشرے میں مساوات ہو وہاں اس (فراوانی) کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ البتہ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر چیز ہر جگہ مساوی و یکساں ہو۔ عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر چیز کو اس کی جگہ اور مقام پر رکھنا۔ یہ ہیں عدل کے معنی۔ انصاف کے معنی وہ نہیں جو بہت سے سادہ لوح افراد اور فکری گہرائی نہ رکھنے والے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی ہر فرد کو سب کچھ یکساں طور پر ملے۔ جی نہیں! ایک شخص ہے جو زیادہ کام کرتا ہے، کسی کی استعداد زیادہ ہے، ملک کی ترقی میں کسی کا کردار بہت زیادہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ حق کے مطابق عمل کیا جائے۔ عدل کے معنی یہ ہیں اور معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے۔

علماء اکرام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑے مقاصد کے لئے کرتے ہیں اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متصاد چیریں ہیں جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے ،اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا ،ناممکنات میں سے ہے لہذا جہاں دہشت گردی ہوگی وہاں اسلام نہیں ہوگا اور جہاں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے چونکہ ہم مسلمان اور سلامتی کی بات کرتے ہیں ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے ہم چاہتے کہ دنیا بھرکے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو۔اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے دہشت گردی کاشکار بناہوا ہے پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے مالی وجانی نقصانات ہوئے ہیں اور ترقی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ