پنجاب کا پہلا نمبر اور مزیدار چوری

Usman Bazdar

Usman Bazdar

تحریر: روہیل اکبر
ہمارے ہاں چوری کی عجیب و غریب وارداتیں ہوتی رہتی ہے مگر حیرت انگیز اورخوفناک بات یہ ہے کہ چھوٹے چور پکڑے جاتے ہیں اور بڑے چور اہم عہدوں پر مزے کررہے ہوتے ہیں سابق حکمرانوں کی ہوشربا کہانیاں سن لیں جنہوں نے اپنے ملازمین کے نام پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے ایدھر ادھر کردیے اور پھر کس ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دونگا میں بات کررہا تو چوری کی وارداتوں کی کہ عجیب وغریب چوریاں صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں یہاں جعل ساز بھی بڑے تگڑے ہیں کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیتے اور اپنا کام جاری رکھتے ہیں پچھلے دنوں پنجاب بار کونسل کے سرگرم عہدیدار محمد احمد قیوم نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی وکیلوں کو فارغ کیا جو عرصہ دراز سے اپنی جعلی ڈگری کی بدولت کالا کوٹ پہن کر لوگوں کو چکر دے رہے تھے۔

مشرف دور میں جب قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے بی اے تک تعلیم لازمی کردی گئی تو بہت سے اراکین جعلی ڈگری بنوا کر ایم پی اے اور ایم این اے بن گئے جنہیں بعد میں نکالا گیا تو انہوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی اسی طرح ایک یونیورسٹی آف گجرات کے ایک سابق استاد اور رحیم یارخان میں موجودہ وائس چانسلر نے اپنے شاگر کے تھیسز چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی یہ ایک مزیدار چوری ہے اس پر آخرمیں لکھوں گا پہلے یہ بتا دوں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کارکردگی میں دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو پیچھے چھوڑ دیاانسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی آو آر)نے پاکستانی عوام کی آراء پر مبنی نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق پنجاب سے 51 فیصد شہریوں نے عثمان بزدار کے صوبے پنجاب میں ترقیاتی کام کروانے کے حوالے سے کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں محمود خان کی کارکردگی سے صوبے کے 48فیصد، جب کہ بلوچستان میں میر عبدالقدوس بزنجو کی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کارکردگی سے 43فیصد افراد مطمئن نظر آئے۔ سندھ کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ صوبے میں ترقیاتی کام کروانے کے حوالے سے اپنی کارکردگی سے38فیصد شہریو ں کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوئے۔ صوبوں میں حکومتی محکموں کی کارکردگی پر بھی عوام کی رائے سامنے آئی اورمجموعی طور پر صوبائی محکموں کی سب سے زیادہ بہتر کارکردگی خیبرپختونخوا میں رہی جہاں سے 69فیصد افراد نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔صحت عامہ کے شعبے میں پنجاب میں سب سے زیادہ یعنی 72فیصد افراد مطمئن نظرآئے جب کہ تعلیم کے شعبے سے بھی پنجاب سے 86فیصد افراد نے کارکردگی پر اطمینان کا اظہارکیا۔سروے میں ملک بھر سے 3 ہزار 7 سو سے زائد افراد نے حصہ لیا اور یہ سروے 22 دسمبر 2021سے 9 جنوری 2022 کے درمیان کیا گیا۔

سروے میں ترقیاتی کام کروانے کے حوالے سے سب سے زیادہ یعنی 51فیصد افراد نے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن ہونے کا کہاہے۔خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان کی کارکردگی سے 48فیصد مطمئن تو 44فیصد غیر مطمئن نظر آئے جبکہ بلوچستان کے چیف منسٹر میر عبدالقدوس بزنجو کی کارکردگی سے 43فیصد افراد مطمئن تو 53فیصد غیر مطمئن نظر آئے۔صوبہ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ کی کارکردگی سے 38فیصد افراد نے مطمئن تو 57فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا کہا۔سروے میں صوبوں میں مختلف خدمات کے بہتریا خراب ہونے کا بھی عوام سے سوال کیا گیا۔

حکومتی محکموں کی کارکردگی سب سے زیادہ بہتر ہونے کا خیبرپختونخوا سے 69فیصد افراد نے کہا جس کے بعد پنجاب سے 61فیصدنے صوبائی محکموں کی کارکردگی پہلے سے بہترتو38فیصد نے مزید خراب ہونے کا کہا بلوچستان سے 54فیصدنے بہتر تو 42فیصد نے مزید خراب ہونے کا کہا جبکہ سندھ سے 50فیصد نے صوبے میں حکومتی محکموں کی کارکردگی بہتر تو 48فیصد نے پہلے سے مزید خراب ہونے کاکہا۔صوبوں میں صحت عامہ کے شعبے کی کارکردگی سے سب سے زیادہ مطمئن پنجاب سے 72فیصد افراد نظرآئے البتہ 26فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا کہا جس کے بعد خیبرپختونخوا سے 67فیصدنے صوبے کے صحت عامہ کے شعبے کی کارکردگی سے مطمئن تو 31فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا بتایا۔

بلوچستان سے 56 فیصدنے کارکردگی سے مطمئن تو 42فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا کہا جبکہ سندھ سے 53فیصد نے صوبے میں صحت عامہ کے شعبے میں کی کارکردگی سے مطمئن تو 46فیصد نے غیر مطمئن ہونے کاکہا۔تعلیمی سہولیات سے مطمئن افراد کی شرح سب سے زیادہ پنجاب سے 86فیصد نظر آئی البتہ صوبے سے 12 فیصد نے غیرمطمئن ہونے کا کہاجس کے بعد خیبرپختونخوا میں 80فیصدنے صوبے میں تعلیمی سہولیات سے مطمئن تو 19فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا کہا۔ بلوچستان میں 62فیصد تعلیمی سہولیات سے مطمئن تو 35فیصد غیر مطمئن نظر آئے جبکہ سندھ میں تعلیمی سہولیات سے 58فیصد مطمئن تو 40فیصد نے غیر مطمئن ہونے کا کہامجموعی طور پر عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے متاثر نظر آئے۔اب آتے ہیں پروفسیر ڈاکٹر سلیمان طاہر صاحب کی کہانی کی طرف جو اس وقت خواجہ فرید یونیورسٹی میں وائس چانسلر تعینات ہیں انکی چوری اس وقت پکڑی گئی جب انہوں نے اپنے ایک شاگرد کا تھیسزز چوری کرکے انٹرنیشنل جریدے” فیول”میں چھپوا دیا جس نے بعد میں اس چوری کو سائنس کی دنیا میں گالی قرار دیکر اس کی تردید بھی چھاپ دی ابھی تک یہ کیس زیر التوا ہے حکومت اپنی تعلیم دوست پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت باقی صوبوں سے بہت آگے جارہی ہے اس لیے ایسے افراد کو فلفور انکے عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ ہمارا تعلیم کا شعبہ پھلتا پھولتا رہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر