”ان دیکھی ” موت کے پنجوں میں محصور ایک کروڑ بارہ لاکھ افراد کا دن جوایک ارب 34 کروڑ روپے کا ساڑھے آٹھ سو من ”سفید زہر” اپنی رگوں میں اتار رہے ہیں پنجاب میں میانوالی منشیات کا (Gateway) گیٹ وے ہے منگل 6 فروری 2001 صحافی دوست جبار صدیقی جو میانوالی سے سہ روزہ نیوز پیپر نکالتے ہیں نے انکشاف کیا تھا کہ ”گرلز کالج میں گزشتہ روز دو طالبات ہیروئین پیتی پکڑی گئی ہیں۔
تب یہ واقعہ وطن عزیز میں حیران کن تھا انسانیت کا درد رکھنے والے اپنے شہر کے ایک پولیس آفیسر شوکت عباس کو کئی روز پہلے میں نے اس المیہ پر کڑھتے دیکھ تو مجھے یاد آیا کہ آج وطن عزیز کی گلیوں میں قدم قدم پر نظر آنے والے مناظر کا خوف آنکھیں بند کر دیتا ہے مستقبل کے معمار جون کی چلچلاتی دھوپ سے بے پرواہ زہر پئے جا رہے ہیں۔چولہے پر روٹی پکاتی مائیں چپکے چپکے روتی ہیں وہ گلی گلی کاغذ، پلاسٹک ، لوہا چنتے ہیں۔بسوں، پارکوں، ہوٹلوں اوربازاروں میں روپیہ، روپیہ بھیک مانگتے ہیں۔
بازو جلا کر علاج کے بہانے قسمیں اٹھا اٹھا کر روتے ہیں ان کی آنکھیں اور گال گڑھے ہیں ۔لباس تن ڈھاپننے کی بجائے گالی بن چکا ہے لیکن! مستقبل کے معماروں کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ان کا مقصد تو دو چار روپے بنانا ہے ۔وہ پھر کسی ویران گوشے سے اک پوڈر کی پڑیا خریدتے ہیں ہیروئین کا سگریٹ سلگتا ہے دواور دوچار کا دائرہ بنتا ہے کش دو کش دھواں سگریٹ اگلے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔
ان کا کوئی وطن نہیں نشے کے خمار نے انہیں وطن، زبان، تعلیم اور انسانیت سے دور کردیا ہے ہیروئین کی مجبوری نے انہیں وقتی طور پر اکٹھا کیا۔بہنوں کی تعلیم اور شگن کیا ہوتے ہیں اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔دن بھر بات بے بات گالیاں سنتے ہیں شام ڈھلے کسی گندگی کے ڈھیر پر ڈیرہ لگاتے ہیں۔ہیروئین بھر بھر سگریٹ پیتے ہیں اور ستاروں کی طرف دیکھے بغیر سو جاتے ہیں۔
Education
اگلی صبح پھر وہی سلسلہ چلتا ہے مستقبل کے معمار چلتے چلتے کسی گاڑی سے ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں کوئی ہاتھ انہیں اٹھانے کو آگے نہیں بڑھتا۔کوئی آنکھ انہیں لہو لہان دیکھ کر نم نہیں ہوتی یہ خود مرتے ہیں اور خود ہی مرتے مرتے جی اٹھتے ہیں پھر ایسا ہوتا ہے کہ! یہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر ہی سوئے سوئے بے سانس ہوجاتے ہیں کئی دن انہیں کوئی جگانے نہیں آتا۔مکھیاں ان کے ناک اور ہونٹوں پر بے فکر ہو کر بھنبھناتی ہیں۔
کسی دوپہر!جب کسی ممتا کے بھولے ،رمضو، بشیرے، پپو، نومی کی بدبو نا قابل برداشت ہو جاتی ہے تو کسی خیراتی ادارے کو اطلاع کر دی جاتی ہے ۔کوئی ایمبو لینس ، سوزوکی یہ بوجھ اٹھاتی ہے ۔کہاں کا جنازہ، کہاں کی قبر، یہی ہوتا ہے کہ کسی میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹس مختلف اعضاء بانٹ کر تجربات کرتے ہیں ۔ اک انسان خاک ہوجاتا ہے جسے ماں باپ نے منتیں ، مرادیں مان مان مانگا تھا ماں جب کبھی اپنے رمضو ، بشیرے کو یاد کرتی ہے تو رو رو سودائی ہو جاتی ہے ۔اس سیاہ بخت کی بہن ، عاشی، روبی جب سکھیوں میں بیٹھتی ہے باتوں باتوں میں بھائی کا نام سنتی ہے تو چوڑیاں ، مہندی، گڑیا چولہے میں پھینک دیتی ہے ۔اور!جب موت کے سودا گروں کو اپنے اک گاہک کے موت کی خبر ملتی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتاوہ کالجوں میں نئے شکار تلاشتے ہیں۔
26جون کا دن یہ سوچ لے کر آتاہے کہ اس جان لیوا کھیل سے حاصل کیا ہوتا ہے ۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم جب کسی معمار وطن کو سفید زہر کی طرف بڑھتا دیکھیں تو اسے روک لیں غازی صلاح الدین بھی یہی کہتا ہے اور انسانیت کا تقاضا بھی یہی ہے۔