تنقید و تنقیص دو متضاد لفظ ہیں اس کے باوجود تحریر و تقریر اور عملی اقدامات میں ان الفاظ کے استعمال میں اس بات کا اندازلگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ فرد یا جماعت نے کن معنوں میں اپنی بات پیش کی ہے۔باالفاظ دیگر جو بات پیش کی گئی ہے وہ تنقید ہے یا تنقیص؟ ٹھیک یہی معاملہ قوموں اور حکومتوں کے عملی رویوں واقدامات کے سلسلے میں بھی پیش آتا ہے۔اس سب کے باوجود یہ بات بہت واضح ہے کہ تنقید میں مسئلہ کا حل بطور متبادل موجود ہوتا ہے ۔برخلاف اس کے تنقیص میںیہ معاملہ نہیں ہے۔
لیکن یہ مرحلہ بڑا کٹھن ہے کہ جس پر تنقید کی جا رہی ہے وہ اس کو تنقید برائے اصلاح سمجھتا ہے یا تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے تنقیص؟معاملہ یہ ہے کہ پانی جہاں مرتا ہے اسی پس منظر میں تنقید برائے اصلاح کو کبھی تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے تنقیص کے ہم معنی سمجھا اور ظاہر کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک اور معاشرے میں فی زمانہ بے شمار مسائل موجود رہیہیں۔اور مسائل جس قدر اہم اور قابل اصلاح ہوں اسی قدر یا اس سے کچھ زائد ہی اصلاحی اقدامات ہونے چاہیں۔
اگر ایسا نہیں ہوتا یا عملی اقدامات اس بات کا اظہار نہیںکرتے کہ مسائل سے نمٹنے کے لیے مثبت کوششیں انجام دی جا رہی ہیں۔تو یہ عمل خود اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ مسائل جن سے ملک یا معاشرہ دوچار ہے، مسائل کے خاتمہ کے لیے بااقتدار افراد یا قوتیں مخلص نہیں ہیں۔اس مرحلے میں مختلف سطحوں پر کی جانے والی تنقید کو تنقیص کے ہم معنی لیا جانا آسان اور کارگر ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ پھر ان افراد اور گروہ کے خلاف ہر ممکن طریقہ سے محاذ آرائی کی جاتی ہے جو تنقید برائے تنقیص نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کیا چاہتے ہیں۔
آج اس بات پر تقریباً تمام ہی سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا اتفاق ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے مختلف مسائل اور ایشوز پر منائے جانے والے “DAYs”سامراجی طاقتوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔جس کے پیچھے اس کے سوا کوئی مقصد کارگر نہیں ہوتا کہ سامراجی قوتیں مزید مستحکم اور پائیدار ہوں۔کچھ اسی انداز کا دن 26جون1987کو بھی یونائیٹیڈ نیشن جنرل اسمبلی کی جانب سے منانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔مقصد :دنیا میں بڑھتے منشیات کے کاروبار اور اس کے ذریعہ لامحدود مسائل سے دوچار معاشرہ کو نجات دلانا تھا۔لیکن نتائج اس بات کے شاہد ہیں کہ جن مقاصد کے حصول میں اس دن کو منائے جانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔
اُس میں وہ لوگ آج تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں،جو کل بھی اور آج بھی Days منا کر مسائل کے خاتمہ میں سرگرم عمل رہا کرتے ہیں۔بین الاقوامی سطح سے لیکر ملکی سطح تک گزشتہ 26 جون 2014 انسداد منشیات دن منایا گیا ہے۔ منعقدہ اسی طرح کی ایک تقریب سے صدر جمہوریہ ہندمسٹر پرنب مکھرجی نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ منشیات کے شکار لوگوں کی شناخت،رہنمائی، کائونسلنگ اور نشے کی لت چھڑانے کے ساتھ ساتھ بعد میں ان کی دیکھ بھال اور باز آباد کاری کے لیے معاشرے پر مبنی مکمل خدمات فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔شراب نوشی اور منشیات کی لعنت ذہنی، سماجی،طبی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
جامع علاج پروگرام کا مقصد صرف متاثرہ لوگوں کی شراب نوشی اور منشیات چھڑانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ منشیات کے شکار لوگوں کو منشیات سے آزاد،جرائم سے آزاد اور روزگار فراہم کرکے معاشرے کے کار آمد ممبر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں منشیات پر منحصر افراد کے سماجی اور معاشی طور پر دوبارہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے صلاحیت،ہنر اور پیشہ ورانہ تربیت کی اہمیت پرزور دینا چاہیے۔صدر نے کہا کہ ملک میں نشہ خوری بڑھ رہی ہے اور اس کے سبب مشترکہ خاندانی نظام کے ہمارے خود نظم و ضبط جیسے سماجی اقدار تباہ ہو رہے ہیں۔
Drugs
نشہ خوری کی برائی پر قابوپانے کے لیے نہ صرف ایسی چیزوں کی حصولیابی کم کی جائے بلکہ ان سماجی حالات سے نمٹا جائے جو ان کی مانگ میں اضافہ کے سماجی حالات پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ہمارے آئین ساز شراب اور منشیات کے خطرات سے باخبر تھے اور اسی لیے انہوں نے راہنما اصولوں میں یہ واضح کیا کہ ریاستوں کو ان پر پابندی لگانے کی طرف کام کرنا چاہیے۔سرکاری بیان میں کہا گیا کہ کافی وقت سے پوری دنیا میں نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے،وغیرہ۔صدر جمہوریہ ہند اور ان جیسے دیگر حکومتی ذمہ داران کی تقاریر سے احساس ہوتا ہے کہ وہ ملک میں منشیات کی روک تھام میں سنجیدہ ہیں۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ذمہ دار و سرکردہ حضرات اور ان کے اہل خانہ خود اس کے استعمال سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔پھر یہ کیونکر یقین کیا جائے کہ وہ شراب و دیگرمنشیات کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں؟
انسداد منشیات کے خلاف یہ جو دن منائے جاتے ہیںاس میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے کہ منشیات کے استعمال سے خرابی ٔ صحت کے مسائل بڑے پیمانہ پر رونما ہوتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ ہاضمہ متاثر ہوتا ہے،جگر کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں،ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں،دل متاثر اور دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں،ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں،کینسر پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،انیمیا ہوتا ہے، یادداشت کمزور ہوتی ہے،خود پر کنڑول رکھنے یہاں تک کہ چلنے پھرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے،نیند متاثر ہوتی ہے اورمتاثرہ لوگ بڑے پیمانہ پر ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔۔
وغیرہ۔سماجی مسائل میں خاندان متاثر ہوتے ہیں،رشتوں میں ناچاقیاں بڑھتی ہیں،صنف نازک پر ظلم و زیادتیوں میں اضافہ ہوتا ہے، بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے،معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں، سڑک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے،انسداد قانون کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے،نشہ خوری کی لت میں مبتلا افراد چوری و ڈکیٹی کے واقعات میں مزید داخل ہوتے ہیں، صحیح و غلط اور جائز و ناجائز کی تمیز ان افراد میں ختم ہوجاتی ہے۔منشیات کے استعمال سے نہ صرف صحت عامہ کے مسائل بلکہ خاندانی،سماجی اور معاشی مسائل کے علاوہ متاثرہ افراد میں بولنے،سوچنے وسمجھنے اور عمل و ردّ عمل جیسی صلاحیتیں بھی کمزور پڑ جا تی ہیں۔
الکوحل یا منشیات لوگوں کو ان کی پریشانیوں،آزمائشوں اور مسائل کو بھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں یعنی یہ افراد ملک و معاشرہ میں لاشعوری میں مبتلازندہ لاشوں کے ہجوم کی شکل میں بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔وہیں ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں فی الوقت77فیصد نشہ کرنے والوں کی عمر11سے 18سال ہے اور زیادہ تر نوجوانوں کی منشیات کی لت کالج اور ہاسٹل کی آزادانہ زندگی سے ہی لگ جاتی ہے۔ملک کے صوبہ پنجاب کے چار اضلاع امرتسر،جالندھر،پٹیالا اور بھٹندا میں کیے گئے سروے کی روشنی میں 78.5 فیصد نشہ کرنے کی عادت 16 سال میں ہی پڑ جاتی ہے۔
متاثرہ نوجوان اور بڑی عمر کے مرد و خواتین جو اس تباہ کاری میں ملوث ہیں وہ کن کن خطرات سے دوچار ہیں ؟اس کا صرف WHO کے حالیہ ٹرینڈس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے جس کے مطابق اگر تمباکو خوری پر گرفت نہ کی گئی توآج ہی 250 ملین بچے ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے۔
دیگر مسائل کی طرح دنیا میں آج منشیات کا فروغ و استعمال بھی ایک بڑامسئلہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسمگلروں نے نشہ آور مرکبات پر توجہ دی۔مارفین،کوکائین، ایتھر اور ہیروئن کے استعمال کے نتیجہ میں اموات ہوئیں تو حکومتیں اس اہم معاشرتی خطرہ کا سدباب کرنے پر مجبور ہوئیں۔پہلے ملکی سطح پر ،پھر بین الاقوامی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے قوانین بنائے گئے اور کئی تنظیمیں وجود میں آئیں تاکہ نشہ خوری اور اس کے سدباب کا مقابلہ کیا جائے۔ایک عالمی تنظیم، بین الاقوامی تنظیم برائے انسداد افیون و دیگر مضرادویات بنائی گئی جو بعد میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے انسداد منشیات میں تبدیل ہو گئی۔
اسی تعلق سے حکومت ہندبھی فی الوقت 361 والنٹری آرگنائزیشن چلا رہی ہے جو 376،de-addiction-cum-rehabiliation centres قائم کیے ہوئے ہیں۔مزیدملک کے مختلف حصوں میں68کائونسلنگ اور آگاہی مراکز(awareness centres) سرگرم ہیںنیز 100de-addiction centers خدمات انجام دے رہے ہیں۔حکومتی سطح کی کوششوں کے علاوہ لا محدود غیر حکومتی تنظیمیں( NGOs)بھی انسداد منشیات کے حصول میں شریک عمل ہیں۔تو پھر کیوں ان تمام کوششوں کے باوجودنہ مسائل میں کمی آتی ہے،نہ منشیات کے استعمال پر قابو پایا جاتا ہے،نہ خاندانی مسائل جو اس کے سبب پیدا ہوتے ہیں ان میں کمی آتی ہے،نہ معاشی ،سماجی و معاشرتی مسائل حل ہوتے ہیںاور نہ ہی اس قدر بڑے پیمانہ پر مال و دولت، وقت، صلاحیتوں اور وسائل کے فروغ و استعمال سے مسئلہ کا حل کا نکلتا ہے؟
معلوم ہوا کہ مسائل سے نمٹنے میں جو فکر کارفرما ہے وہی ناقص ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناقص فکر ونظر کی بنا پر رائج طریقہ تعلیم میں جس معصوم بچپن اور نوجوان نسل کو سینچا اور پروان چڑھایا جاتا ہے وہ مسئلہ کے حل میں مزید رکاوٹ بنتا ہے۔پھر وہ ناقص طرز حکومت بھی مسئلہ کا بھر پور حل نہیں رکھتی جس کی روشنی میں “روشن خیال جمہوریت کے علمبردار”قوت و اقتدار کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگر یہ تنقید برائے اصلاح نہیں ہے تو پھر کیا وجہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہدایت پر مدینہ کی گلیاں شراب نوشوں کو مجبور کردیتی کہ ان کے منہ سے لگے شراب کے گلاس چکنہ چور کر دیے جائیں!معاملہ واضح و مستحکم عقیدہ ،فکر و نظریہ اور طرز حکومت میں تبدیلی کا ہے۔
جس کی تلاش میں آج عالم انسانیت در در بھٹک رہی ہے۔لیکن محسوس ہوتا ہے کہ شہنشاہ عالم،اللہ رب العزت کی بڑائی و کبرائی کا اظہار کرنے والے لاشعوری سے دوچار ہونے کی بنا پر ہی نہیں جانتے کہ جس مذہب کے وہ پیرو کار ہیں ،وہ نہ صرف ہر مسئلہ کا حل رکھتا ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی پیش کرتا ہے۔لاشعوری کی بنا پر وہ ہر جانب ذلیل و خوار ہیں اور ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہو لیکن وہ واقف ہی نہ ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے!۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com