تحریر : فضل خالق خان پاک چین دوستی زندہ باد کے نعروں کی گونج میں چینی صدرشی چن پنگ پاکستان آئے اور چلے بھی گئے ۔میاں برادران نے پرجوش استقبال کرکے پاکستان کے عظیم دوست ملک چین کے صدر شی چن پنگ کو خوش آمدید کہا اور قوم کو نوید سنائی کہ چین کی حکومت پاکستان کو درپیش بحرانوں کے خاتمے میں مدد کرے گا باالخصوص توانائی کے بحران سے قوم کو نجات دلانے کی آس دلائی گئی ۔اس بات کے چرچے ہوئے کہ 46 ارب ڈالر زسے زائد کے منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ۔اور ان منصوبوں کے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے ملک کی ترقی کا پہیہ تو گھومے گا ہی گھومے گا لیکن عام آدمی کی زندگی میں بھی نمایا ں تبدیلیاں رونما ہوں گی،(کیونکہ عام آدمی کی فکر تو آج کل ہر کسی کو ہے )۔
چینی صدرشی چن پنگ کایہ دورہ پاکستان تو پچھلے سال اگست کے مہینے میں متوقع تھا لیکن مبینہ طورپر عمران خان کے انقلابی دھرنے کے باعث ملتوی ہوا۔جس پر میاں برادران سمیت پوری ن لیگ کی حکومتی مشینری پاکستان کو بے تحاشہ نقصان پہنچنے کا واویلا کررہے ہیں ۔ پاک چین دوستی کے اس سفر کے حوالے موجودہ دورے کو اگر چہ بین الاقوامی تناظر میں نہایت گہرائی سے دیکھا گیا اور برطانوی میڈیا نے اسے نئی سپر ہائی وے کی تعمیر سے تشبیہہ دیا تو امریکی اور پڑوسی ملک ہندوستان کی میڈیا نے بھی پاکستان کے حوالے سے اسے غیر معمولی قرار دیا۔
لیکن دوسری جانب اسے اب حقیقت کے آئینے میں ملکی تناظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مرکز نے چھوٹے صوبوںکا بری طرح استحصال کیا۔ جب چینی صدر شی چن پنگ پاکستان تشریف لے آئے تو ائر پورٹ پر استقبال کرنے کے لئے میاں برادران بڑے کروفر کے ساتھ نمودار تھے ۔ جبکہ ملک کے باقی صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو مکمل طورپر نظر انداز کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی غیر موجودگی کو ہر دیکھنے والی آنکھ شدت سے محسوس کررہی تھی۔ سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخو ا کی نمائندگی کا نہ ہونا اور وہاں کے وزرائے اعلیٰ کو نہ بلانے کی زیادتی کو بری طرح محسوس کیا گیا۔
Nawaz Sharif
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان میاں صاحب بھائی بندی کو ایک طرف رکھ کر پنجاب سمیت ملک کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایک صف میں کھڑا کرتے تو اس اقدام سے ان کا قد مزید بڑھتا ۔یہاں ہمارا موضوع ہرگز یہ نہیںکہ خاتون اول کی حیثیت سے کلثوم نواز کی حاضری درست ہے یا غلط کہ یہ ان کا حق تھالیکن مریم نواز سمیت شریف خاندان کے دیگر افراد کس حیثیت سے اس تقریب کا حصہ تھے بلکہ ہمارا موضوع سخن یہ ہے کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران کل 51معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں سے نصف سے زیادہ یعنی 30 بڑے !ہاں بڑے منصوبے پنجاب میںبنیں گے جبکہ باقی صرف اکیس منصوبے ملک کے دیگر صوبوں میں مکمل کئے جائیں گے۔
اس بات سے بہ خوبی انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی صدر کا یہ دورہ ‘ دورہ پاکستان نہیں بلکہ دورہ پنجاب تھا اور کئے گئے معاہدے حکومت پاکستان سے نہیں بلکہ حکومت پنجاب سے اس کی تعمیر وترقی کے لئے کئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے عوام کی خوش قسمتی ہے یا خان صاحب کے دھرنوں کا رعب ہے کہ 870 میگاواٹ کے سکی کنال پاور پراجیکٹ اور حویلیاں ڈرائی پورٹ کے 2بڑے منصوبے ان کے حصے میں آئے اس کے علاوہ خیبر پختون خوا کے لئے کوئی قابل ذکر منصوبہ سامنے نہیں آیا اور اللہ اللہ خیر صلاّ۔اسی طرح سندھ کے لئے بھی 50/50 میگاواٹ کے تین منصوبوں اور تھر سے سالانہ 83 لاکھ ٹن کوئلہ نکالنے کے منصوبے کا اعلان کرکے وہاں کے عوام کو بھی مستقبل میں خوشحالی کی نوید سنائی گئی۔
بلوچستان کے لئے کچھی کینال اور گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بات پھر وہاں پرآکر ٹکتی ہے کہ حکومت کو تمام صوبوں کو ترقی کے اس دوڑ میں شامل کرنے کے لئے توازن برقرار رکھنا چاہئے تھا ۔ تاکہ کل کو کوئی صوبہ یا اس کے عوام یہ نہ کہتے کہ ہماری ساتھ زیادتی کی گئی ہے (جو ہر کسی کو نظرآرہی ہے )۔تیس سے زائد منصوبے جو پنجاب میں مکمل کئے جائیں گے ان میں میٹروٹرین سمیت بجلی کے بھی بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ جن کے مکمل ہونے سے پاکستان ہی کی ترقی ہوگی کیونکہ پنجاب بھی اس ملک ہی کی اکائی ہے لیکن اگر ان منصوبوں کی تکمیل میں توازن کا خیال رکھا جاتا تواس کے اور بھی بہتر نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔
Load Shedding
پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کرنے سے ان علاقوں کے عوام کااحساس محرومی مزید بڑھے گا جو کسی صورت مناسب نہیں۔ ماضی میں مرکز کی انہی غیر منصفانہ پالیسیوں کی بدولت دیگر صوبوں میں احساس محرومی کا عنصر پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ بڑھتا گیا ۔بہ نظر غائر دیکھا جائے تو فی الوقت صوبہ خیبر پختونخوا ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کا بیشتر حصہ تیا ر کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ اس حوالے سے محرومی کا شکار بھی یہاں کے عوام ہی ہیں۔ سالہا سال لوڈشیڈنگ کے اندھیرے یہاں کے عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس صوبے میں صنعتی پہیہ زبوں حالی کا شکا رہے ۔ محکمہ برقیات کے وزیر عابد شیر علی نے مسند اقتدار پر متمکن ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ جن علاقوں سے سو فیصد بجلی بلوں کی مد میںریکوری ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ برائے نام ہی کی جائے گی جس پر خیبر پختونخوا کے عوام ان سے سوالی ہیں کہ وہ اپنے دعوے میں کتنے سچے ثابت ہوچکے ہیں کہ یہاں سے تو سو فیصد ریکوری باقاعدگی سے ہورہی ہے۔
اسی طرح چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موضوع سے ہٹنے سے گریز کرتے ہوئے ایک بار پھر سوال کرتے ہیںکہ اگر ہمارے حکمران ملک وقو م کی ترقی سے حقیقت میں مخلص ہیں تو پھر پاک چین دوستی کے حوالے سے شروع کئے گوادر پورٹ کے لئے مقرر شدہ روٹ کی تبدیلی کیوں کی گئی ۔کیا پہلے کے منصوبہ ساز اس ملک سے مخلص نہیں تھے یا ان کی سمجھ میں کوئی خامی تھی ۔ اگر نہیں تھی تو اس روٹ کو جو اس ملک وقو م کے حق میں حقیقی معنوں میں ترقی کا منصوبہ سمجھا جاتا تھا اس کو تبدیل کرنے کے لئے (حقیقت میں پنجاب کو مستفید کرنے کے لئے)اگر دیگر صوبوں کو بھی اعتما دمیں لئے جانے کے بعد کوئی تبدیلی کی جاتی تو بہتر نہ ہوتا۔
ہم یہ نہیںکہتے کہ پنجاب کی ترقی پاکستان کی ترقی نہیں یا پنجاب پاکستان کی اکائی نہیں بلکہ یقینی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کی ترقی پاکستان ہی کی ترقی ہے لیکن دیگر صوبوں کا احسا س محرومی ختم کرنے کے لئے توازن کا خیال رکھنے سے عوام کا جذبہ حب الوطنی مزید بڑھے گا اور وہ اپنی ذات سے بڑھ کر ملک وقوم کی ترقی کا سوچ اپناتے ہوئے ترقی کے دوڑ میں شامل ہونے پر فخر محسوس کریں گے۔