حکومت پنجاب میں سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016ء

Punjab Government

Punjab Government

تحریر : سید توقیر زیدی
حکومت پنجاب نے سول ایڈمنسٹریشن آرڈی ننس 2016ء منظور کر لیا ہے جس کے مطابق صوبے میں ڈی سی اوز کا عہدہ ختم کرکے ڈپٹی کمشنر بنادئے جائیں گے ڈپٹی کمشنر ضلع میں سرکاری ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ اور حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرائے گا آرڈی ننس کے مطابق ڈپٹی کمشنر بطور جسٹس آف پیس کسی بھی کریمنل کیس کی سماعت کر سکے گا ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنروں کی کارکردگی کی نگرانی کرے گا ضلع کے اندر تمام لوگوں کو بہترین سروسز کی ڈلیوری کے لئے اقدامات کرے گا پولیس کے سربراہوں سے مشاورت کے ساتھ امن وامان کو بہتر بنانے اور شہریوں کی زندگی کی حفاظت کے لئے مناسب اقدامات کرنا بھی ڈپٹی کمشنر کی ذمے داریوں میں شامل ہو گا۔ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ایڈیشنل کمشنر وں کی جگہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تعینات ہوں گے۔

ڈپٹی کمشنر ضلع کے اندر لوکل کونسل کے سربراہ کو کسی وقت بھی طلب کرسکے گا سروسز ڈلیوری کو بہتر بنانے کے لئے لوکل کونسل کے عہدیداروں سے رابطے میں رہے گا لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کی ذمہ داری بھی ڈپٹی کمشنر پر عائد ہوگی سرکاری پراپرٹی کو ریگولیٹ بھی ڈپٹی کمشنر ہی کرے گا ضلع کے ضروری اعدادوشمار کو مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر عائد ہوگی ڈپٹی کمشنر سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں ڈپٹی کمشنر کو اس حوالے سے کچھ اختیارات دینے کے لئے حکومت کو پولیس ایکٹ اور ٹی آر ٹی سی سسٹم میں ترمیم کرنا ہوگی۔ ڈی سی او کے دفتر کا خاتمہ اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے کی واپسی اس دن ہوگی جب حکومت موجودہ سسٹم کو ختم کر کے نئے بلدیاتی سسٹم کو رائج کرنے کا فیصلہ کرے گی۔

ڈی سی او کا عہدہ اس وقت تخلیق کیا گیا تھا جب جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام نافذ کیا اس نئے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر کے بعض اختیارات تو ضلعی ناظم استعمال کرنے لگے تاہم بعض امور ایسے تھے جن کی انجام دہی کے لئے ضلعی ناظم کو ڈی سی او کی طرف دیکھنا پڑتا تھا، سادہ الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ ڈپٹی کمشنر(ڈی سی) کے اختیارات ڈی سی او اور ضلعی ناظم کے درمیان تقسیم کردئے گئے، جنرل پرویز مشرف اپنے تخلیق کردہ اس نظام کے بہت بڑے حامی اور موید تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح انگریزی دور کی عطاکردہ بیوروکریسی کو جدید دور سے ہم آہنگ کردیا گیا اور پاکستان ایک انقلابی جست لگا کر جدید دور میں داخل ہوگیا ہے جہاں شہری امور چلانے کے لئے منتخب نمائندوں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے اور وہ اپنے امور میں خود مختار ہو گئے ہیں۔

DCO

DCO

ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ نیا نظام انہوں نے یونہی بیٹھے بٹھائے نافذ نہیں کردیا بلکہ ان کے مقرر کردہ ماہرین اور عالی دماغوں نے اس نئے نظام پر ”ہزاروں گھنٹے” غور کیا ہے اور طویل مشاورت کے بعد اسے نافذ کیا گیا ہے وہ اپنے پورے دور میں اس نئے نظام کی برکات کا تذکرہ کرتے رہے اس سے بعض فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ ضلعی ناظم اور ڈی سی او کے درمیان بعض امور کے فوری فیصلے نہیں ہو سکتے تھے جن کی وجہ سے کئی کاموں میں تاخیر ہو جاتی رہی، پنجاب کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام میں ترمیم کر کے ڈی سی او کا عہدہ تو قائم رکھا تاہم کمشنر کا عہدہ بھی چند برس قبل بحال کر دیا گیا اب نئے آرڈی ننس کے تحت ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بھی بحال کردیا گیا ہے اور بلدیاتی اداروں کے سلسلے میں بھی اسے بعض اختیارات دے دئے گئے ہیں جن سے یہ مطلب لیا جارہا ہے کہ حکومت نے منتخب بلدیاتی اداروں کے اوپر سرکاری نگرانی کا سسٹم دوبارہ قائم کردیا ہے جس کے تحت بلدیاتی اداروں کی خود مختاری ختم کردی گئی ہے۔ پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس پر پولیس حکام کو بھی تحفظات ہیں جس کے تحت پولیس کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کردیا گیا ہے پولیس کا موقف ہے کہ پرانے نظام کا تسلسل جاری رہنا چاہیے، جس میں پولیس ڈپٹی کمشنر کی بجائے ضلعی حکومتوں کے سربراہ کو جواب دہ تھی۔

پولیس حکام نے ڈپٹی کمشنر سسٹم کی بحالی پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ دور ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ سال پہلے تک پولیس اسی سسٹم کے تحت کام کررہی تھی اور غالباً اس وقت تک اس کے کوئی تحفظات بھی نہیں تھے ان پندرہ برسوں کے دوران اگر پولیس نے اس سسٹم میں بہتری محسوس کی ہے تو دونوں نظاموں کا موازنہ کر کے اس پر غور کیا جاسکتا ہے، اگر ان پندرہ برسوں میں پولیس کی ٹیم میں کوئی بہتری آئی ہے تو پھر نیا نظام جاری رکھنا چاہیے اور اگر حالات پہلے کی نسبت خراب ہوئے ہیں تو پھر ڈی سی سسٹم کی بحالی اور پولیس کو اس میں ماتحتی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر تحفظات جائز ہیں تو پھر کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔نظام کوئی بھی ہو، فی نفسہ اس میں کوئی زیادہ خرابیاں نہیں ہوتیں اور اگر ہوں بھی اور سامنے آتی رہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے اور اگر ساتھ ساتھ اصلاحات ہوتی رہیں تو نظام درست طور پر چلتا رہتا ہے انگریز نے اپنی نو آبادیاتی ضرورتوں کے لئے ڈپٹی کمشنری کا جو نظام قائم کیا تھا اس نے ان کی حکمرانی کی ضروریات تو کماحقہ پوری کیں، بدیشی حکمرانوں کا دبدبہ بھی قائم کیا اور ایڈمنسٹریشن کے تقاضے بھی پوری طرح نبھائے،یہ نظام انگریزوں کے مقاصد تو پورے کرتا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد اس نظام کو ایک آزاد مملکت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے ہم اسی نظام کے تحت چلتے رہے۔

فرق صرف یہ پڑا کہ گورے صاحب کی جگہ گندمی اور کالے صاحب آگئے اورباقی سب کچھ اسی طرح رہا آزاد پاکستانی مملکت کے کسی بھی حکمران نے اس نظام کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی، پولیس سسٹم کے لئے بھی کئی کمیشن تو قائم کئے گئے لیکن یہ بھی اسی ڈگر پر چلتا رہا جس پر چلتا آرہا تھا۔جنرل پرویز مشرف نے اگر اسے بدلنے کی ضرورت محسوس کی اور اس کاکریڈٹ بھی لیا تو ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کے جانے کے بعد اسے بہتر بنایا جاتا لیکن ایسا نہ کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نئے نظام میں وقت کے تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی سکت نہ رہی اور 2008ء کے بعد پرانے نظام کی جانب مراجعت کے لئے اقدامات کئے جانے لگے اب ڈی سی سسٹم کی بحالی سے اس پر اگر پولیس کی جانب سے اعتراضات سامنے آرہے ہیں یا ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے اختیارات کم ہو جائیں گے تو ان اعتراضات کو رفع کرنے کی ضرورت ہے، پرانا ڈی سی سسٹم اگر حالات میں بہتری لاسکتا ہے تو اس کی بحالی میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم خدشات دور کرنا ضروری ہے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی