لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے پنجاب حکومت پر انتقامی کارروائیاں کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہےکہ صوبائی حکومت دباؤ ڈال رہی ہے اس لیے اسمبلی میں آواز اٹھانے کے لیے گروپ بنایا۔
لاہور کی بینکنگ کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ ’عدالتوں میں مسلسل پیش ہورہے ہیں اور ہم سے جو چیز مانگی جاتی ہے وہ دیتے ہیں، ہر چیز کی دستاویز ہے، جن جن چیزوں پر سوالات اٹھائے تھے ان کی مکمل منی ٹریل ایف آئی اے کو دے دی ہے، ہمارے خلاف تینوں ایف آئی آر میں چینی کا کوئی ذکر نہیں، اس ایف آئی آر کا چینی مافیا یا شوگر اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کل رات میڈیا میں ایک طوفان کھڑا کیا گیا کہ ہم پی ٹی آئی سے ہٹ رہے ہیں لیکن واضح کررہا ہوں کہ پی ٹی آئی کا حصہ تھے، ہیں اور رہیں گے، ہمارا گروپ تین ماہ سے بنا ہوا ہے یہ کل نہیں بنا‘۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ میرے خلاف ایف آئی آر پر میرے دوست ساتھ کھڑے ہیں اور جب یہ لوگ وزیراعظم کو ملے تو وزیراعظم نے علی ظفر سے کہا کہ آپ ایف آئی اے اور ہمارے لوگوں سے بھی ملیں، انصاف کریں اور حقیقت سامنے لائیں، علی ظفر سے ہمارے وکلا کی تفصیلی میٹنگ ہوئی، امید ہے ان کی رپورٹ جلد منظر عام پر آئے گی یا وزیراعظم کو چلی جائے گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان انصاف پسند ہیں مگر پنجاب حکومت نے ہمارے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں، افسران کے تبادلے شروع ہوگئے، اس دباؤ کے نتیجے میں میرے عشایئے میں لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی آواز پنجاب اسمبلی میں اٹھائیں گے کیونکہ اس کی تمام ذمہ داری پنجاب حکومت پر ہے ان کا رویہ غلط ہے‘۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ’پنجاب حکومت دباؤ ڈال رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی پالیسی کے خلاف دباؤ ڈالا جارہا ہے، اس لیے اسمبلی میں بات کرنے کے لیے ضروری ہےکہ گروپ بنائیں، اسمبلی میں ترجمانی کے لیے گروپ بنایا، ہم کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہم پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، پارٹی نہیں ٹوٹی اور نہ ٹوٹے گی، ہمیں انصاف کی توقع ہے جب کہ پنجاب حکومت کو کہوں گا اپنی کارروائیاں بند کریں اور ہمارے گروپ کا خیال کریں، یہ آپ کے ہی لوگ ہیں اس حکومت کے وجود میں ہمارے لوگوں کا بھی حصہ ہے لہٰذا ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم حکومت کے ساتھ ہیں اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، الگ لوگ ہر پارٹی میں ہوتے ہیں، ہمیں ہدف بنایا جارہا ہے، اس لیے اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں‘۔