لاہور (جیوڈیسک) پنجاب حکومت نے نئی مردم شماری کے بعد صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے محاصل کو اگلے 30 سال کے لئے فریز کرنے کی مخالفت کر دی جبکہ آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کو بھی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 30 سال تک رکھنے کے فیصلے کی بھی مخالفت کر دی ہے اور مردم شماری 2015 میں کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
چیف سیکرٹری پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں مردم شماری کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری قانون، سیکرٹری فنانس، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ ، اور پی اینڈ ڈی کے سیکرٹری نے شرکت کی۔ وفاقی وزارت شماریات نے تجویز دی تھی کہ صوبوں میں مردم شماری کے حوالے سے اختلافات ختم کرنے کے لئے بھارت کی طرز پر اگلے 30 سال کے لئے وفاقی محاصل، اور قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کے عمل کو فریز کر دیا جائے۔
جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے صوبوں سے رائے لینے کی ہدایات دی تھیں ۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں مردم شماری کے ایشو پر ایک مرتبہ پھر تنازعہ پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گھروں کی خانہ شماری کے نتائج کو مسترد کردیا اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس خانہ شماری میں سندھ، کراچی، اور بلوچستان کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو ا تھا۔
جبکہ پنجاب حکومت نے ایک اور مطالبہ بھی کیا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کروائی جائے۔ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو اپنا جو موقف بجھوایا ہے اس میں کہا ہے کہ سیاسی طور پر اس قسم کا فیصلہ حکومت کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گا کیونکہ حکومت نے اس ضمن میں جو تجاویز دیں۔ اس کی شدید مخالفت ہو سکتی ہے اور وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد ہو سکتا ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کی سیاسی خودمختاری کو دبانا چاہتی ہے۔
تاہم وفاقی محاصل سے ملنے والی رقوم کے حوالے سے پنجاب حکومت نے تجویز دی ہے کہ اسے 30 سال فریز کرنے کی بجائے 2020ء تک فریز کر دیا جائے۔ تاہم 2020 میں نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں رقوم کی تقسیم کا فارمولہ طے کیا جائے۔ پنجاب حکومت نے نئی مردم شماری کو فوج کی نگرانی میں کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے بغیر مردم شماری ٹھیک نہیں ہو سکتی۔