چپ لگانے کا فیصلہ

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
ایک قومی اخبار کی رحیم یارخان سے خبر ہے کہ حکومت نے خواتین کو حراساں کرنے والے، تشدد کرنے والے شوہروں کی مانیٹرنگ کے لیے پائوںمیں کڑے لگی چپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیل اس خبر کی یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے رحیم یار خان سمیت پنجاب بھر میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے اب خواتین کو حراساں کرنے والے افراد تشدد کرنے والے سابق شوہروں اورایسی خواتین جنہوں نے اپنے خاوندوں کی جانب سے تشدد کرنے پر عدالتوں میں کیس دائر کر رکھے ہیں۔

ان مردوں کی مانیٹرنگ کے لیے ان کے پائوںمیں کڑے لگی چپ لگانے کافیصلہ کیاہے۔تاہم اس چپ لگانے کے احکامات عدالت جاری کرے گی۔جس کے لیے حکومت نے باقاعدہ صوبائی قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔تاکہ حکومت کے اس اقدام کوکسی عدالت میں چیلنج نہ کیاجاسکے۔ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے انقلابی اقدامات اٹھانے کے باوجودخواتین پرتشدد کے واقعات میں کمی نہ آسکی ہے۔اورعدالتوںمیں بھی خواتین پرتشدد کے کیسزلاتعدادچل رہے ہیں۔جس پرحکومت نے شوہروں کی مانیٹرنگ کے لیے چپ لگانے کافیصلہ کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں حکومت نے صوبہ بھرکی ضلعی حکومتوں اورقانونی ماہرین سے تجاویزطلب کی ہیں۔چارمئی کے ایک اورقومی اخبارمیں اسلام آبادسے خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے خواتین کے تحفظ کابل لانے کا فیصلہ کیا ہے۔نئے قانون کے تحت ہرضلع میں خواتین پروٹیکشن آفیسرکاتقررہوگا۔خواتین کوچھیڑنے والے افرادکے جسم میں ٹریکنگ ڈیوائس لگے گی۔ٹریکنگ سسٹم سے ایسے افرادکے متعلقہ خواتین کے کام اورمصروفیات والے مقام پرآنے پرپابندی ہوگی۔

ایسی ڈیوائس لگانے کے لیے خواتین آفیسرز عدالت سے آرڈرحاصل کرنے کی مجازہوں گی۔اس سے پہلے اخبارات میں یہ خبربھی آئی تھی کہ حکومت نے فورتھ شیڈول میں شامل افرادکی نگرانی کے لیے ان کے جسموں میں چپ لگانے کافیصلہ کیا ہے۔اس سے بھی پہلے یہ خبرشائع ہوئی تھی کہ ایک خاتون عدالت میں پہنچ گئی تھی۔ اس نے اپنے خاوند کے خلاف دائر مقدمہ میں یہ موقف اختیارکیاتھا کہ اس کے شوہر نے اس کی جاسوسی کے لیے اس کے جسم میں ٹریکرلگارکھا ہے۔اس کے جسم سے ٹریکرنکالاجائے۔اس خاتون کادعویٰ سچاتھا یاجھوٹا۔ اس بارے توکچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ خبرپڑھنے کے بعد پہلی مرتبہ اس بات سے آگاہی ہوئی کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب کسی بھی انسان کی کسی بھی وقت جاسوسی کی جاسکتی ہے۔انسانوں، اداروں، محکموں، دشمنوں اورملکوں کی جاسوسی اب سے نہیں بہت پہلے سے کی جارہی ہے۔ملک کودشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے اوردشمن کے عزائم سے باخبررہتے ہوئے اس کے حملوں سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی غرض سے اس کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ملک دشمن عناصرکی سرگرمیوں پرنظررکھنے کے لیے بھی ان کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق ٢٦ خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔قارئین اخبارات میں اس طرح کی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں شہرمیں اتنے دہشت گرد داخل ہوگئے ہیں۔ اہم تنصیبات اورمقامات کونشانہ بناسکتے ہیں۔

دہشت گرد فلاں شہر میں واردات کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔فلاں شہر سے اتنے کلوگرام بارودبرآمد ہواہے۔ فلاں شہر سے بارودبھراٹرک پکڑا گیا ہے۔فلاں جگہ سے اتنا وزنی بم برآمدجسے ناکارہ بنادیا گیا ہے۔یہ سب کارروائیاں ان خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پرہی ہوتی ہیں۔انسانوں، اداروں، محکموں، دشمنوں اورملکوں کی جاسوسی توبہت پہلے سے کی جارہی ہے۔ تاہم اس کے اندازاورطریقہ کارمیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آرہی ہے۔اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی جگہ یاانسان کی جاسوسی اب پہلے سے بھی آسان ہوگئی ہے۔کسی بھی انسان کی جاسوسی کس وقت کی جاسکتی ہے اورکس وقت نہیں۔ یہ آپ کسی بھی ایڈووکیٹ سے پوچھ سکتے ہیں۔ اس تحریر میں ہم اپنے قارئین کوصرف اتنا بتادیتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی جاسوسی ہروقت نہیں کی جاسکتی۔خواتین کوحراساںکرنے والے افراد، ان پرتشددکرنے والے شوہروں اوران کوچھیڑنے والے مردوں کے جسم میں ٹریکنگ ڈیوائس یا ان کے پائوںمیں کڑے لگی چپ لگانے کا جوفیصلہ کیا گیا ہے۔اس پر عمل ہوتا ہے یانہیں ہوتا۔حکومت کے اس مجوزہ اقدام بارے ابھی تک کسی سیاستدان، کسی این جی اوز، کسی آئینی ماہر، کسی انسانی حقوق کے علمبردارکی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔حکومت پنجاب نے توتجاویزبھی طلب کی ہیں۔

Women Violence

Women Violence

ردعمل سامنے نہ آنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ہوسکتا ہے یہ سب شخصیات اس انتظارمیں ہوں کہ اس کی مزیدتفصیلات سامنے آجائیں پھر ردعمل دیا جائے گا۔ہوسکتا ہے کہ وہ اس کو اہمیت ہی نہ دے رہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ کہتے ہوں کہ حکومت جوکرتی ہے اسے کرنے دو۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ حکومت کے اس اقدام سے ان پرتوکوئی اثرنہیں پڑے گا۔ اس لیے ردعمل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پہلی بات تویہ ہے کہ حکومت کا یہ اقدام کام یاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔کیونکہ کسی بھی انسان کے جسم میں ٹریکر، ٹریکنگ ڈیوائس یاچپ لگانا نہ قانونی طورپردرست ہے اورنہ ہی اخلاقی طورپر۔جیسا کہ آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ پنجاب حکومت نے اس سلسلہ میں صوبائی قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ حکومت کے اس اقدام کوکسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جاسکے۔ پنجاب حکومت ایسی قانو ن سازی میں کامیاب بھی ہوجائے تب بھی کسی بھی انسان کے جسم میں ٹریکر یا چپ لگانا اخلاقی طورپرکسی بھی طورپرمناسب نہیں ہے۔کسی بھی انسان کے جسم میں ٹریکر یاچپ لگانا اس کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے۔جن افرادکے جسموںمیں ٹریکر یاچپ لگی ہوئی ہوگی ۔ ان کی سرگرمیوںکو ایک کنٹرول روم میں دیکھا جارہا ہوگا۔انسان اپنی طبعی حاجت کے لیے ایسی جگہ بھی جاتا ہے جہاں اس نے تنہا ہی جانا ہوتا ہے۔ کوئی دوسرااس کے ساتھ نہیں جاسکتا۔جس کے جسم میں ٹریکریاچپ لگی ہوئی ہوگی۔وہ طبعی حاجت کے لیے کیسے جائے گا۔وہ توجائے گا کیونکہ وہاں جانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہوگا۔جواس کی سرگرمیوںکوکنٹرول روم میں دیکھ رہے ہوں گے کیا وہ یہ منظردیکھ پائیں گے۔ایسا شخص جس کے جسم میں ٹریکریاچپ لگی ہوئی ہوگی ۔وہ اپنی بیوی سے اپنے ازواجی تعلقات بھی قائم نہیں رکھ سکے گا۔

پہلے توکسی بھی انسان کے جسم میں ٹریکر، ٹریکنگ ڈیوائس، پائوںمیں کڑے لگی چپ لگاناکسی بھی طورپرمناسب نہیں ہے۔اگرحکومت ایسا کرنا ضروری سمجھتی ہے ۔اورہرصورت میں ایساکرناہی چاہتی ہے تویہ ٹریکنگ ڈیوائس یاکڑے لگی چپ صرف ایسے افرادہی کونہ لگائی جائے جوخواتین کوحراساں کرتے ہیں، ان پرتشدد کرتے ہیں یاان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔یہ چپ یاٹریکنگ ڈیوائس متاثرہ خواتین کوبھی لگائی جائے۔تاکہ ان کی بھی مانیٹرنگ کی جاسکے۔کہیں وہ توایسا کام نہیں کرتیں جس کی وجہ سے ان کے شوہران پرتشددکرنے پرمجبورہوجاتے ہوں۔لڑکیوں کی شادی کرکے عدالتوں کے ذریعے تنسیخ کرالینااب فیشن بن چکاہے۔جس کے پاس اورکوئی جوازنہ ہوتوتشدد کرنے کاجوازبنادیا جاتا ہے کہ خاوند تشدد کرتاہے۔چاہے اس کے شوہر نے عدالت میں کیس دائر کرنے والی اپنی بیوی کوتھپڑ بھی نہ ماراہو۔کبھی کسی نے نہیں دیکھا یا سنا ہوگا کہ جس طالب علم کو سبق بھی یاد ہو، اس نے سکول سے دیا گیا ہوم ورک بھی مکمل اورٹھیک ٹھیک کررکھا ہو، وہ وقت پر سکول بھی آتاہو اوروقت پرجاتاہو،سکول میں شرارتیں بھی نہ کرتاہو اس کو کسی ٹیچرنے سزادی ہو۔بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔مردوں کے جسموںمیں ٹریکنگ ڈیوائس یاکڑے لگی چپ لگانے کے وہ نتائج برآمدنہیں ہوں گے جوخواتین کے جسموںمیں لگانے سے سامنے آئیں گے۔مردوں کے جسموںمیں لگانے سے متاثرہ خواتین پرجب وہ تشدد کریں گے تبھی وہ تشدد کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔وہ یہ کام کسی اورسے بھی کراسکتے ہیں۔خواتین کے جسموںمیں چپ یاٹریکنگ ڈیوائس لگانے سے یہ فائدہ ہوگا کہ جوبھی ان کو حراساں کرے گا یا ان پرتشدد کرے گا وہی دکھائی دے گا۔خواتین پرتشدد کرنے والوں سے بھی زیادہ خطرناک افراداس ملک میںموجود ہیں۔ دہشت گرد خواتین پرتشدد کرنے والوں سے کسی بھی طورپرکم نہیں ہیں۔یہ ٹریکنگ ڈیوائس یاچپ ان کے علاوہ بہت سے کرداروںکولگائی جاسکتی ہے۔ یہ چپ تمام سرکاری ملازمین اورافسران کو لگائی جا سکتی ہے۔تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ کس وقت دفتر آتے ہیں۔ کس وقت دفترسے جاتے ہیں اوروہاں بیٹھ کرکیا کرتے ہیں۔

تمام محکموں اوراداروں کے فیلڈ سٹاف کوبھی یہ چپ لگائی جاسکتی ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ متعلقہ فیلڈمیں کس وقت جاتے ہیں وہاں کیا کرتے ہیں اورکس وقت وہاں سے واپس آجاتے ہیں۔ یہ چپ تمام سیاستدانوں کوبھی لگائی جاسکتی ہے تاکہ ان کی سرگرمیاں بھی حکومت کے سامنے رہیں۔یہ چپ یا ٹریکنگ ڈیوائس سماجی اداروںمیں کام کرنے والوں، صنعتی اداروںمیں کام کرنے والوں، صنعتوں کے مالکان اورمنیجر صاحبان، کاروباری شخصیات اوران کے پا س کام کرنے والوں،ٹرانسپورٹروں، گاڑیوں کے ڈرائیوروں، کنڈیکٹروںکوبھی لگائی جاسکتی ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ اپنے کام پرکس وقت جاتے ہیں کس وقت واپس جاتے ہیں۔ یہ کیا کاروبارکرتے ہیں۔ان کی روزانہ کی آمدنی کیا ہے۔کیا یہ حکومت کوٹیکس اپنی آمدنی کے مطابق دیتے ہیں۔ ان تمام کرداروں کے جسموں میں ٹریکنگ ڈیوائس یا چپ لگانے کاایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ یہ معلوم ہوسکے گا کہ ان کی دیگر سرگرمیاں کیا ہیں۔سرکاری ملازمین اورافسران دفتری اوقات کے بعد کیا کرتے ہیں۔ سیاستدان اپنے حلقے کے عوام سے کتنا رابطہ رکھتے ہیں۔ ان کے اجتماعی اورانفرادی مسائل پرکتنی توجہ دیتے ہیں۔یہ سرکاری وسائل کااستعمال کس طرح کرتے ہیں۔این جی اوزکی سرگرمیاں کیا ہیں۔ان کے پاس کون کون سی شخصیات آتی ہیں۔ان سب کرداروں کی سرگرمیاں ملک کے خلاف تونہیں۔کیا ان کے تعلقات اوران کا اٹھنا بیٹھنا ملک دشمن عناصر کے ساتھ تونہیں۔چپ یاٹریکنگ ڈیوائس لگانے سے یہ سب کچھ ہوسکتا ہے تاہم اس سے ان تمام کرداروں کی ذاتی زندگی اجیرن ہوکررہ جائے گی۔ وہ کہیں بھی آزادی سے نہیںجاسکیں گے اورنہ ہی وہ کسی سے آزادی سے بات کرسکیں گے۔کسی بھی انسان کے جسم میں چپ یاٹریکنگ ڈیوائس لگانا اس کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے۔اس طرح کی جاسوسی ضروری ہے تو سی سی ٹی وی کیمروں کی طرح کی ڈیوائس انسانو ں کے جسموں میں نہیں تمام سرکای دفاتر، کاروباری مراکز،عوامی مقامات اوراہم تنصیبات پرنصب کی جائے۔

جس طرح سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کسی بھی واردات کے بعد ملزما ن کی شناخت ہوجاتی ہے۔اس طرح کی ڈیوائس ان مقامات پر نصب کرنے سے ان اداروں اوردفاتر کی مانیٹرنگ آسان ہوجائے گی۔اس سے بھی معلوم کیا جاسکے گا کہ کون کس وقت آتا ہے اورکس وقت جاتا ہے۔ کاروباری مراکزمیں کاروبارکیسا ہورہا ہے۔کیا حکومت کو ٹیکس آمدنی کے مطابق دیا جارہا ہے یا نہیں۔ایسی ڈیوائس ایسی جگہوں پرلگائی جائیں کہ وہ آسانی سے کسی کونظربھی نہ آسکیں اوراپنا کام بھی بغیر کسی رکاوٹ کے کرتی رہیں۔اس کا کنٹرول روم مقامی، صوبائی اور قومی سطح پرہونے چاہییں۔اس طرح کی ڈیوائس بجلی کے کھمبوں اورمیٹروںمیں بھی لگائی جائے تاکہ بجلی چوروںکواس کی مدد سے پکڑا جاسکے اوربجلی چوری کو روکا جاسکے۔تمام ٹرانسپورٹ اور مسافر ٹرانسپورٹ میں بھی اس طرح کی ڈیوائس لگائیں جائیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ کس رفتار سے چلائی جارہی ہے۔مسافروں سے کرایہ کس تناسب سے وصول کیا جارہا ہے۔ حکومت کے مقرر کردہ شیڈول کے مطابق وصول کیا جارہا ہے یا اس سے زیادہ وصول کیا جارہا ہے۔تمام ہوٹلوں میں بھی اس طرح کی ڈیوائس لگائی جانی چاہیے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان ہوٹلوںمیںکس طرح کے لوگوں کی آمدورفت ہے۔اس طرح کی ڈیوائس ریلوے اسٹیشنوں اورریل گاڑیوںمیں بھی لگائی جائے اس سے ریلوے کے نظام کو آسانی سے مانیٹر کیا جاسکے گا۔بینکوں سمیت تمام مالیاتی اداروںمیں بھی اس طرح کی ڈیوائس لگائی جائے تاکہ وہاں کی سرگرمیوں کو بھی براہ راست ماینٹر کیا جاسکے۔ہوائی اڈوں اور ہوائی جہازوںمیں بھی ایسی ڈیوائس لگائی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ جہاں بھی ضروری ہواس طرح کی ڈیوائس لگادی جائے۔اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے کسی کی ذاتی زندگی پرکوئی اثرنہ پڑے۔ کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی کے راز نہ کھلنے پائیں۔اس بات کو ضرور مدنظررکھا جائے کہ اس اقدام سے کسی بھی انسان کی شخصی آزادی سلب ہوکرنہ رہ جائے۔

Mohammad Saddiq Perhar

Mohammad Saddiq Perhar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com