پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کا دوہرا معیار

Punjab Healthcare Commission

Punjab Healthcare Commission

تحریر : شہزاد حسین بھٹی
پنجاب حکومت نے 2013ء میں عطائیت کے خاتمے کے لیے معالجین اور علاج گاہوں کو رجسٹرڈ کرنے اوران کے اعداد و شمار جمع کرنے اور لوگوں میں صحت کے متعلق شعور اُجاگر کرنے اور بیماریوں کے متعلق آگاہی، ان سے بچائو کے لیے حفاظتی پیشگی اقدامات کے لیے پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ گوکہ اس ادارے کے قیام کی شنوائی گذشتہ کئی سالوں سے سنی جا رہی تھی اور اس ادارے کے مقاصد میں علاج معالجہ کرنے والے افراد کی درجہ بندی کی گئی جن کو اپنے اپنے شعبے میں علاج معالجہ کی اجازت حاصل ہو گی ان میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس،نیشنل کونسل فار ہومیوپتھی سے رجسٹرڈ ڈی ایچ ایم ایس ، نیشنل کونسل فار طب سے رجسٹرڈ ایف ٹی جے اورپاکستان نرسنگ کونسل سے رجسٹریشن کی حامل گریجویٹ نرسسز اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تمام ٹیکنیشن، ڈسپنسر، ہیلتھ ٹیکنیشن،ایڈنرس، ایکسرے ٹیکنیشن وغیرہ کو کیٹگری بی میں ڈال دیا گیا اور ان تمام افراد کو ہیلتھ کیئر کمیشن کے قوانین کے مطابق پریکٹس کی اجازت نہیں ہے تاہم ڈاکٹرز کو اس بات کا پابند گیا گیا کہ وہ اپنے سٹاف میں ان کوالیفائیڈ کو رکھیں اور انکی خدمات حاصل کر لیا جہاں پر ایک طرف ان کوائیفائیڈ افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔ دوسری طرف عوام کو انکی بدولت علاج معالجہ کی بہتر سہولیات میسر آئیں۔

Doctors

Doctors

پنجاب ہیلتھ کمیشن کی طرف سے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا پر کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کروائے گئے اور معالجین کو رجسٹریشن کی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی مگررجسٹریشن کے عمل میں رضا کارانہ طور پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ جسکے بعد ہیلتھ کئیر کمیشن نے سروئے ٹیموں کے ذریعے معالجین کی علاج گاہوں کی تصاویر اور ا ن کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا جسکے نتیجے میں تقریباً 38 ہزار سے زائد معالجین کو صوبہ پنجاب میں رجسٹرڈ کر لیا گیا۔سروئے کے نتیجے میں دیکھنے میں آیا کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹراور حکما حضرات نے فارم بھر کر ہیلتھ کئیر کمیشن کی مطوبہ فیس ادا کرکے لائسنس کے لیے درخواستیں ارسال کر دیں مگر ایم بی بی ایس ڈاکٹرز نے ہیلتھ کمیشن سے خاطر خواہ تعاون نہیںکیا۔ ڈاکٹرز کی اکثریت نے لائسنس کے حصول کے لیے باقاعدہ طور پر درخواستیںتک نہ دیں البتہ ہیلتھ کئیر کمیشن نے اپنی وساطت سے ان کا ریکارڈ مرتب کیا جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے اور اس کے بعد معالجین کو بے ضابطگیوں پر کروڑوں روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔

اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایلوپیتھک سسٹم کے ڈاکٹرز کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ ہیلتھ کئیر کمیشن کی ہدایات کے مطابق اپنے کلینکس مرتب کریں اور صرف سرکاری میڈیکل فیکلٹیوں کے کوائیفائیڈ سٹاف کو اپنے سٹاف کا حصہ بنائیںاور اپنے کلینکس میں باقاعدہ طور پر کوائیفائیڈ فارماسسٹ کی زیر نگرانی میڈیکل سٹورز کا ڈرگز سیلز لائسنس لیں اور مریضوں کو دی جانیوالی پرسکرپشن پر بیماری کا انداراج کریں اور نسخہ واضح اور صاف کرکے کیپیٹل حروف میں لکھیں۔

خادم اعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ معاملات طے کر کے انکو ہیلتھ کیئر کمیشن کے قوانین پر عمل درآمد کا پابند کریں تاکہ ہیلتھ کئیر کمیشن کے قوانین پر اچھے طریقے سے عمل درآمد ہو سکے اور معالجین کے باقی طبقات کے تحفظات بھی دور ہو ں کیونکہ سبھی اس ملک کے شہری ہیں اور تمام معالجین کے ساتھ برابر سلوک ہو۔ اگر ایلوپیتھک ڈاکٹرز پر چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہ رکھا گیا تو ہیلتھ کئیر کمیشن آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کے رہ جائے گا اور اس کی افادیت اور مقاصد ختم ہو کر رہ جائیں گے۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی