تحریر : مسز جمشید خاکوانی تقریباً دس سال پہلے کی بات ہے میری دوست کا بیٹا جو پنجاب کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں کارڈک سرجن بن رہا تھا دو اور ساتھی ڈاکٹرز کے ساتھ ایک مہلک وائرس کا شکار ہو گیا اس سے کوئی ایک یا دو ماہ پہلے روزنامہ خبریں کے سنڈے میگزین میں ایک آرٹیکل چھپا تھا کہ پنجاب کارڈیالو جی میں ایئر کنڈیشن سسٹم میں خطرناک وائرس پایا گیا ہے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین سے چھ ینگ ڈاکٹرز وائرس کا شکار ہو گئے تین تو جلدی ٹھیک ہو گئے دو لڑکے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے میری دوست کا بیٹا بہت مشکل سے اس نے سروائیو کیا شائد ماں کی دعائوں سے یا زندگی باقی تھی کتنا عرصہ وہ سٹیرائڈز پہ رہا ۔ہم اس سے ملنے گئے وہ اوپر اپنے کمرے میں لے گیا جہاں ڈاکٹرز کو رہائش دی گئیں تھیں واضح رہے کہ وہاں کچھ ڈاکٹرز اپنی فیملیز کے ساتھ رہ رہے تھے ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کا روم فریج اندر سے گل چکا تھا اس پورے ماحول میں ایک عجیب سی اسمیل تھی جس میں سانس لینا دشوار لگ رہا تھا ہم نے پوچھا یہاں کیسے زندہ ہو؟ بولا اب تو عادت ہو گئی ہے پہلے بہت اذیت ہوتی تھی یہ بدبو اس گندے نالے کی ہے جو سامنے سے گذر رہا ہے ہسپتالوں کی گندگی سب ادھر جاتی ہے کوئی پانچ فٹ چوڑا اور سات فٹ لمبا وہ کمرہ تھا ہنس کر کہنے لگا اب یہ کمرہ تو ملا ہے ورنہ جو چند گھنٹے سونے کو ملتے تھے وہ ایک آفس ٹیبل تھی جس پر سے چیزیں ادھر ادھر کر کے میں سوتا تھا ابھی کچھ عرصہ پہلے پنجاب کارڈیالوجی میں جعلی سٹنٹ ڈالنے کا اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس پر کیا کاروائی ہوئی کچھ علم نہیں کیونکہ آجکل ہمارا میڈیا ،ہمارے اخبارات ہمارا سوشل میڈیا صرف دو موضوعات کے ارد گرد گھوم رہا ہے ،ایک ہے ” مجھے کیوں نکالا” اور دوسرا ہے ” عمران تیسری شادی کس سے کر رہا ہے۔
اب اللہ جانے یہ دو مسلے اس قدر اہم ہیں کہ باقی تمام مسلوں پہ حاوی ہو گئے ہیں یا ان دو مسلوں کو باقی تمام مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ”ہاٹ ایشو ” بنا دیا گیا ہے ابھی حال ہی میں ایک اور ینگ ڈاکٹر جس کی آنکھوں میں زندگی مسکراتی تھی جو ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا لاہور ہی کے کسی ہاسپٹل میں مہلک وائرس کا شکار ہو کر چل بسا ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ اچانک کیوں مر گیا لیکن بے شک موت برحق ہے مگر انسان اپنی سی کوشش تو کرتا ہیلیکن ہمارے ارباب اختیار صرف مال بنانے یا مال بچانے کی کوششوں میں لگے ہیں ان کے علاج باہر ہوتے ہیں وہ ادھر کے ہسپتالوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے کہ انہیں پتہ چلے یہ ہسپتال موت کی وادیاں بن چکے ہیں ان ہسپتالوں کی کوئی چیز ایسی نہیں جو وائرس زدہ نہ ہو یہاں شفا کی بجائے موت ملتی ہے لیکن آفرین ہے ان ینگ ڈاکٹرز اور نرسوں پر جو ان بد بو دار ہسپتالوں میں زندگی بانٹتے ہیں اور کوئی مریض مر جائے تو لوحقین کی گالیاں ،کوسنے ،مکے تھپڑ بھی انہی کے حصے میں آتے ہیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہوتے ہیں یا اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ،اب ینگ ڈاکٹرز کی اکثریت ملک چھوڑنے لگی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے بہترین سال ان بدترین ہسپتالوں میں گذارتے ہیں جہاں پینے کا پانی بھی اتنا آلودہ ہے کہ اگر لیبارٹری ٹیسٹ کروائیں تو آپکی چیخیں نکل جائیں گی جہاں ادویات نہیں ،سٹریچر نہیں ،آکسیجن تک نہیں ،پنجاب کے ہر ہسپتال میں ایک وائرس پایا جاتا ہے ”سینو مونس ویرو گینوسا” نامی یہ وائرس ہر وینٹی لیٹر میں پایا جاتا ہے جس وینٹی لیٹر پر مریض کو اس لیے ڈالا جاتا ہے کہ زندگی کی آخری امید باقی ہوتی ہے لیکن یہاں وینٹی لیٹر پہ ڈالنا آخری امید ختم کرنا ہوتا ہے اس لیے میں نے تو آج تک کسی کو زندہ واپس آتے نہیں دیکھا ایک فرینڈ نے ایک ہاسپٹل کی وڈیو بھیجی جس میں ایک آدمی اپنے مریض کو کمر پر لاد کر جا رہا تھا کیونکہ وہاں سڑیچرز کی کمی ہے اس گندے اور غلیظ ترین ہسپتالوں کے لیے ان حکومتوں کے پاس کوئی بجٹ نہیں چیف جسٹس صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ اورنج ٹرین کا ایک ڈبہ کم کر لیں اور وہ رقم کسی ہسپتال پہ لگا دیں تو کہا گیا کہ جسٹس صاحب انتظامی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں تو آخر یہ عوام کہاں جائے ؟
پہلے فوج کو آوازیں دیتی تھی اب عدلیہ سے امیدیں لگا بیٹھی ہے یہ ینگ ڈاکٹرز ہمارا سرمایہ ہیں سات سال لگا کے ایک ڈاکٹر بنتا ہے سردی گرمی عید شبرات کوئی بھی خوشی غمی ہو یہ بے چارے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں زندگی موت پہ ان کا اختیار نہیں ہوتا مگر تھپڑ انہیں کھانے پڑتے ہیں پیشیاں انہیں بھگتنی پڑتی ہیں اگر تمام معاملات کو ایمانداری سے چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں یہ ہسپتال واقعی شفا خانے بن جائیں حال ہی میں جنوبی پنجاب میں خصوصاً ملتان اور بہاولپور میں ”سیزنل انفلوانزا ” نے کئی جانیں لے لی ہیں حتی کہ تمام ڈاکٹرز کو ویکسی نیشن کرانی پڑی ہے کیونکہ نرسیں اور ڈاکٹرز ہر وقت مہلک جراثیموں کی زد میں رہتے ہیں ظاہر ہے ان کے ساتھ ان کی فیملیز بھی انہی خطرات سے دوچار رہتی ہیں تو خدا کے لیے میری خادم اعلی صاحب سے گذارش ہے اس گمبھیر مسلے کی طرف توجہ دیں لوگ زندہ رہیں گے تو میٹرو میں بیٹھیں گے ،پلوں پر چلیں گے اورنج ٹرین کے جھوٹے لیں گے جب سے یہ بد بخت آئے ہیں قوم زہنی اور جسمانی بیماریوں سے نکل ہی نہیں رہی عدلیہ کو اس کا نوٹس بھی لینا چاہیے کہ صحت اور تعلیم کا بجٹ سڑکوں پہ کیوں لٹایا جا رہا ہے کیا ان سے کوئی جواب طلب کرے گا؟