تحریر:شہزاد حسین بھٹی وطن عزیز پاکستان کی روز اول سے یہ بد قسمتی رہی ہے کہ اسے اہل اور غیر جانبدار حقیقی قیادت میسر نہیں آئی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے جائز و ناجائز ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے بیورو کریسی کو اپنے تابع بنا کر غیر قانونی احکامات کی پاسداری کر و ائی ہے آج ملک کو وجو د میں آئے 67 سال ہو گئے ہیں مگر نہ تو ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنی بالغیت کا ثبوت دیا ہے اور نہ ہی بیورو کریسی نے اپنا قبلہ درست کر نے کی کوشش کی ہے۔
ضلع اٹک صوبہ پنجاب کا امن و امان کے حوالے سے ایک پر امن ضلع ہے مگر گذشتہ کچھ عرصے سے سماج دشمن عناصر اس ضلع کے امن وامان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا چاہتے ہیںاس ضلع کی کل آبادی 2008 کے اعدادو شمار کے مطابق 1.58 ملین افراد پر مشتمل ہے اور یہاں اردو، پنجابی، ہندکو اور پشتو زبانیں عام بولی جاتیں ہیںاس اضلاع میں افغان مہاجرین کی بھی ایک کثیر تعداد رہائش پذیر ہے یہاں کے لوگ ملنسار اور مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سرکاری آفیسر کی یہ دلی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ریٹائر منٹ کے بعد اٹک میں ہی اپنی باقی ایام زندگی گزار دے۔
راقم نے بھی بچپن اور نوجوانی کی منزلیں اسی ضلع کے شہر اٹک میں طے کی ہیں اور اپنی صحافت کا آغازبھی اسی شہر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔آج یہ سب لکھنے کا محرک ٹارگٹ کلنگ کا وہ واقع ہے جوگذشتہ ہفتے ضلعی ہیڈ کوارٹر اٹک کے حمام روڈ پر واقع چھاچھی ہوٹل پر پیش آیاجہاں ٹارگٹ کلرز نے دن دیہاڑے ناشتہ لینے کی غرض سے آنے والے نہایت ہی شریف آئی بی اہلکار ملک قمر انیس (جسے راقم ذاتی طو ر پربھی جانتا ہے) کو دو موٹر سائیکل سوار وں نے سر عام فائرنگ کر کے ہلاک کر دیااور انتہائی دیدہ دلیری سے ہوائی فائرنگ کرتے ہو ئے ڈھوک پٹھان کی جانب فرار ہو گئے ۔جبکہ تھانہ سٹی کی پولیس حسب روایت ایک گھنٹے کے بعدجائے واردات پہنچی اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچایا
اٹک شہر میں اس نوعیت کی یہ چھٹی واردات ہے مگر تادم تحریر پولیس اس وحشت ناک واردات کا سراغ لگانے میں نا کام دیکھائی دے رہی ہے پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اٹک میں ہونے والی پے در پے چھ ٹارگٹ کلنگ کی واردتوں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا حکم دے اور عرصہ دراز سے سیاسی بنیادوںپر تعینات غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب افسران کو فوری طور پر معطل کرکے ان واقعا ت کا فوری سدباب کرے تاکہ مستقبل میں ایسا کو ئی واقعہ رونما نہ ہو سکے۔
Pakistan Muslim League (N)
ایک اطلاع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)کے مقامی وزیر مملکت کی سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت عروج پر پہنچ چکی ہے اور ضلع اٹک میں سرکاری اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی وزیر مملکت کی آشیر باد کے بغیر نا ممکن ہے ضلع اٹک میں سیاسی بنیادوں پر سرکاری افسران عرصہ داراز سے تعینات ہیںجبکہ قواعد کی رو سے کوئی بھی سرکاری اہلکار تین سال سے زیادہ کسی جگہ نہیں رہ سکتا ہے مگر اٹک میںایسے کئی افسران کی مثالیںدی جا سکتی ہیںکہ جنھوں نے اپنی ساری نوکر ی ایک ہی مقام تعیناتی پر گزار دی ہے۔
اٹک کے نواحی علاقے شکر درہ کے رہائشی ٹریفک انسپکٹر نے اپنی ساری سروس اٹک میں پوری کی ہے جبکہ ایک جنوبی پنجاب کے مسلم لیگ (ن)کے صوبائی وزیر کے بھائی جو آجکل ڈی ایس پی ہیں وہ بھی جب سے پولیس سروس میں آئے ہیں اٹک میں تعینات ہیں حالیہ تعینات ضلعی رابطہ کا ر آفیسر نے اپنی ساری سروس اٹک میں ہی گزار دی ہے اور ریٹائرڈ بھی یہاں سے ہونگے۔
عرصہ دراز سے تعینات ضلعی آفسران کے مقامی جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ تعلقات فروغ پانا ایک قدرتی امرہے یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف لب کشائی سے گریزاں ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کو دوائم بخشے ہوئے ہیں ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں اور مقامی نمائندہ تنظیموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ ایسے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کریں تاکہ جرائم کی بیخ کنی کی جا سکے۔
ضلع اٹک میں امن و امان کی صورت حال کوکنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عرصہ دراز سے تعینات سرکاری افسران کو نہ صرف فوری طور پر تبدیل کیا جائے بلکہ نئے تعینات ہونے والے افسران کو میرٹ پر اور سیاسی مداخلت سے دور رکھنا ہوگاکیونکہ ایمان دار اور فرض شناس افسران ہی جرائم پر قابو پا سکیں گے۔
ملک میں جہاں ہماری افواج سرحدوں پر ملک دشمن عناصر کے خلاف حتمی لڑائی لڑ رہی ہے وہاں ہماری پولیس اور دیگر امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ہماری افواج کے ساتھ شانہ بشانہ اندرونی جرائم پیشہ عناصر کی سر کوبی کریں تاکہ ملک کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بنایا جا سکے۔ جہاں لوگوں کی جان و مال اور عزت محفوظ رہ سکیں اور سرکاری افسران اپنے کارہائے بارے جوابدہ ہوں پولیس کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ امیروں کے جرائم کی پردہ پوشی کرے اور غریبوں کو انکے ناکروہ گناہوں کی پاداش میں پابند سلاسل کرے پولیس کو حقیقی معنوں میں عوام کا خادم اور انکے حقوق کا رکھوالا بنناہو گا۔موجووہ حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی صفوںمیں سے کالی بھیڑوں کو باہر کرنا ہوگاجو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سیاسی جماعت کی چھتری استعمال کرتے ہیںمیرٹ پر تعینا ت افسران ہی حقیقی معنوں میں عوام کے خادم ہو سکتے ہیں۔