تحریر : محمد امجد خان گزشتہ روز کے اخبارات میں خبر تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ارکان اسمبلی کے اسرار پرعطایت کے خلاف سخت احکامات جاری کرتے ہوئے خاتمہ کیلئے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں،یہ ایک اچھی خبر تھی جسے پڑھ کر یہ کہنے کو دِل چاہا کہ یہ تو بہت اچھا کام ہے انسانی جانوں سے کھیلنے والے کِسی رعایت کے مستحق نہیں ہونے چاہئیں اِن کے خلاف تو ضرور کار وائی ہونی چاہئے،کیونکہ یہ خبر پڑھ کر آنکھ کان بند کر لئے جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اِ س سے پہلے حکومت نے جتنے بھی محاظ کھولے تھے یا منصوبے شروع کئے تھے وہ سب کے سب مکمل ہو چکے،جس کے نتیجہ میں صوبہ بھر سے ہر قسم کی کرپشن وظلم زیادتی کا خاتمہ ہوجانے کے بعد اب کِسی کو کوئی دُکھ تکلیف باقی نہیں رہی اور ہر شہری کی ماہانہ آمدن 25سے 30ہزار کو پہنچ چُکی ہے اِس لئے اب ہر شہری ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی چیک اپ فیس ادا کرنے کے قابل ہوچکاہے لہذا 30،30روپے لے کر بھینسوںوالے انجکشن لگانے والوں کی اب ضرورت نہیں رہی اِس لئے اب اِن کا خاتمہ ممکن ہے،
لیکن اگر یہ خبر پڑھنے کے بعد آنکھیں و کان کھُلے رکھتے ہوئے پنجاب کے باسیوں کا قریب سے بغورمشاہدہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ارکان اسمبلی نے میاں صاحب کو آنکھوں ،کانوں سے محروم سمجھ کر عطائیت کے خاتمے کا مشورہ نہیں بلکہ قوم کو بیماریوں کا نوالہ بنانے کا مشورہ دیا ہے ، کیونکہ پاکستان دُنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کا قانون لاگو ہے ،جہاں قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کئے گئے ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنے والے آفیسر ز جنہیں حکومت نے قوم کی خدمت کیلئے بطورِ خادم تعینات کیا ہے وہ خود کو حاکم جبکہ قوم جو دِن رات ایک کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی اِن کُرسیوں پر کشکول تھامے بیٹھے بادشاہوںکو کھِلاتی ہے خود کو اِن کا غلام سمجھتی ہے ،یہاں جو امیر ہے وہ امیر سے امیر تر ہے اور مذید ہوتا چلا جاتا ہے اور جو غریب ہے وہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے ،
یہاں ایک مزدور صبح سے لے کر شام تک گدھے کی طرح کوینٹل کی بوری تِلے رہتا ہے ،اور صرف دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتا ہے ،اور جب بیمار ہوکر چیک اپ کی فیس نہ ادا کر سکنے کے سبب کِسی سرکاری ہسپتال کا رُخ کرتا ہے تو نعش بن کر واپس آتا ہے ،کیسے نعش بنتا ہے یہ بات میں اپنے گذشتہ کالم میں پہلے ہی تفصیلاًبیان کر چکا ہوںجس کی ہیڈنگ(احتجاج کا علاج )تھی مگرافسوس کہ اِسے صرف تین اخبارات کے علاوہ بڑے بڑے دعوے کرنے والوں سمیت کِسی نے شائع نہیں کیا ،جس کی وجہ سے ایک بار تو کافی دلبرداشتہ بھی ہوا مگر شائع کرنے والوں نے میرا یہ کالم شائع کر کے صرف میری حوصلہ افزائی ہی نہیں کی بلکہ میرے قارئین کے سامنے یہ بھی ثابت کر دیا کہ سبھی کے سبھی ابھی ایک جیسے نہیں ہوئے ،کچھ نہ ڈرنے والے نہ جھُکنے والے اور نہ بِکنے والے اب بھی باقی ہیں ،جس کی بدولت آج پھِر لِکھنے بیٹھ گیا،
Children
خیر ! بات کرنے کا مقصد تھا ایسے میں جیسے آج کل سرکاری ہسپتال غریبوں کے علاج گاہوں کی بجائے ملازموں کی سیر گاہیں جبکہ کوالیفائیڈ ڈاکٹر وں کی علاج گاہیںقربان گاہیں دکھائی دینے کے سبب جب مڈل کلاس طبقہ کے پاس واحد سہارا عطائیوں کا رہ جائے گا تو تب حکومت کی جانب سے عطائی ڈاکٹروں کے کلینکس سیل کر دیئے جانے باوجود بھی لوگ اُنہیں ہی کے پاس جائیں گے چاہے وہ کِسی چوہے کی بِل میں ہی کیوں نا جا گھُسیں،جو کہ عطایت کے خاتمہ میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے ،لہذا عطایت کا خاتمے کیلئے فضول جدو جہد کرکے ڈرگ انسپکٹروں کی منتھیاں بڑھوانے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ حکومت محکمہ ہیلتھ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتال بھی ختم کردے اور جتنے بھی اِس محکمے کے ملازمین ہیں اُن سب کو اُن کی خواہشات کے مطابق نوازتے ہوئے ریٹائرڈ کر دے تاکہ وہ کہیں پھِر سے سڑکوں پر نہ آجائیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دے کہ کِسی بھی شہری کی جان سے کھیلنے کیلئے کِسی سرٹیفکیٹ یا سند کی کوئی ضرورت نہیں جوجِسے چاہے بھینسوں والا ٹیکہ لگا کرمار سکتا ہے ،
جوکہ اِس محکمہ کے ہوتے ہوئے بھی ہو رہا ہے اور نہ ہوتے ہوئے بھی ہوگا کیونکہ موجودہ سفاشی و کرپشن زدہ نظام میں حکومت کا اِس محکمہ پر ایک رتی برابر بھی کنٹرول دکھائی نہ دینے کے سبب اِس میں تعینات آفیسر میرے نذدیک قومی خزانے پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں ،لہذا جس محکمہ پر حکومتی کنٹرول ہی نہیں اُس کا حکومتی خزانے پر بوجھ کیوں رکھا جائے ،اوراگر کنٹرول ہے تو پھِر حکومت کو تھوڑی غیرت کی گولی کھاتے ہوئے تمام تر سفارشیں و آفریں ترک کرتے ہوئے سب سے پہلے اِس محکمہ کے کرپٹ آفیسرز ودولت کے پجاری ڈاکٹر زکا خاتمہ کرنا ہوگا، ملازمین کی پرائیویٹ پڑیکٹس پر پابندی عائیڈ کرنا ہوگی ،
اور اُس کے ساتھ ہی سرکاری ہسپتالوں کے دروازوں پر بنے پرائیویٹ میڈیکل سٹورز جہاں سے یہ کمیشن وصول کرتے ہیں کوکم از کم تین کلو میٹر ہسپتالوں سے دور منتقل کرتے ہوئے میڈیسن کمپنیز کی طرف سے ڈاکٹرز کو دیئے جانے والے کمیشن پر پا بندی عائد کرنا ہوگی ،جس سے سرکاری ہسپتالوں کے حالات خود بخود ہی درست ہو جائیں گے اور جب ہسپتالوں کے حالات درست ہونگے اور ہر شہری کو ہر سہولت مفت میں میسر ہونے لگے گی توتب کِسی کو کِسی عطائی کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور کوئی آپریشن یا کریک ڈائن کئے بغیر عطائیت خود بخود ہی ختم ہو جائے گی