لاہور (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ پولیس جیسی ڈسپلنری فورس میں بوگس بھرتیاں افسوسناک ہیں،کل دہشت گرد اور’’را‘‘ کے ایجنٹ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
جسٹس اعجازاحمد چوہدری اور جسٹس عمرعطابندیال پرمشتمل 2 رکنی بینچ نے لاہور، ملتان، راجن پوراوردیگرعلاقوں میں بوگس دستاویزات پربھرتی ہونیوالے 62 پولیس اہلکاروں کی بحالی کا ہائیکورٹ کا حکم معطل کردیا، گزشتہ روز آئی جی عدالت میں پیش ہوئے اوراعتراف کیا کہ کچھ انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعات رونما ہوئے،کام کابوجھ زیادہ تھا،اس لیے مناسب نگرانی نہیں کی جا سکی۔
جسٹس اعجازچوہدری نے کہاکہ حیران کن بات ہے کہ کسی افسرنے یہ دیکھنے کی زحمت گوارانہیں کی کہ اہلکاروں کی بھرتی ہوئی بھی ہے یانہیں،ایسے تو دہشت گرد اوررا کے ایجنٹ بھی بھرتی ہو سکتے ہیں،پولیس کا کام لوگوں کی حفاظت اور سیکیورٹی کرنا ہے مگر یہ لوگ کسی بھی ضلع یاشہرمیں تقرری کراکر بم دھماکے اور قتل کر سکتے ہیں،عدالت نے افسروں کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈی آئی جی عہدوں کے افسروں کا اپنا موڈہوتاہے، کوئی اہلکار6ماہ سے غیر حاضر ہوتوپوچھتے نہیں، سیاسی لوگوں کے کہنے پربرطرف اہلکاروں کو بحال کردیتے ہیں۔
ڈی آئی جی حضرات کو کوئی پوچھنے والا نہیں ، زنا، ڈکیتی اور دوسرے مقدمات میں ملوث لوگ پولیس میں کام کر رہے ہیں، عدالت نے آئی جی سے کہا کہ ایسے لوگوں کوپولیس سے نکالیں،محکمے میں اچھے لوگوں کی جانچ پڑتال کریں تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو، جن لوگوں نے بوگس بھرتیاں کیں ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں،لگتاہے آپ بڑے پیٹی بھائیوں کوکچھ نہیں کہتے، آئی جی نے بتایا کہ انفرادی طورپرمعاملات اعلیٰ افسروں کے علم میں آتے رہے جس پر کارروائیاں بھی کی گئیں مگربرطرف اہلکار عدالتوں میں چلے گئے اورحکم امتناع حاصل کرلیا۔
ہم عدالتوں میں کیسوں کی صحیح پیروی نہیں کرسکتے،آئندہ 4 سے 6 ماہ کے دوران پنجاب پولیس کاپورا نظام کمپیوٹرائزڈہو جائے گا جس کے نتیجے میں بوگس بھرتیوں اورڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کاآسانی سے پتہ چل سکے گا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ کرپٹ اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کومحکمے سے نکالیں جبکہ بوگس بھرتیوں کے حوالے سے انکوائریوں کی تفصیلات سے 15 روزمیں آگاہ کیا جائے۔