ساہیوال میں نہتے خاندان پر پولیس کی غنڈہ گردی نے پورے ملک کو رلا دیا ایسی بزدلانہ اور دہشت گردانہ کاروائی تو ان امریکیوں نے بھی نہیں کی تھی جنہوں نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے اسکی بیوی اور بچوں کو آنچ تک نہ آنے دی اور یہاں ہمارے ہی محافظوں نے ایک تیرہ سالہ بیٹی اریبہ کو چھ گولیاں مار دی اسکی ماں نبیلہ کو چار گولیاں والد خلیل کو 13 گولیاں اور والد کے دوست ذیشان کو 10گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا جسکے فوری بعد پولیس نے دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے کی جھوٹی خبر چلوادی اور پھر جیسے جیسے سوشل میڈیا پر شہریوں نے مختلف ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کی تو پھر پولیس نے بھی اپنے بیانات بدلنے شروع کردیے اور رہی سہی کسر پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے پوری کر دی۔
انہوں نے اپنی ہی حکومت کی بنائی ہوئی انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر سانحہ ساہیوال پر ایک عدد پریس کانفرنس کردی وزیر قانون کی اس پریس کانفرنس کے بعد استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی سمیت مختلف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے وزیرقانون کے استعفے کا مطالبہ کردیا پہلے پولیس اور پھر بعد میں پنجاب حکومت کی جلد بازی سے نے انکی اپنی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں سانحہ ساہیوال کے بعد ہمارے سیاستدانوں نے بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور پھر وقت نے ہمیں کیا کیا منظر دکھا ڈالے قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر اور نیب کے ملزم جناب میاں شہباز شریف صاحب اسمبلی میں سانحہ ساہیوال پر شعلہ بیانی فرما رہے تھے تو ایک لمحے یوں محسوس ہوا جیسے میں “تختِ پنجاب” پر دس سال مسلسل حکمرانی کرنے والے شخص کی نہیں بلکہ کسی عام پاکستانی کی پکار سن رہا ہوں جسے پہلے بار قومی اسمبلی میں آواز اٹھانے کا موقع ملا ہے اور وہ حکومت پر اپنا غم و غصہ نکال رہا ہے ، سوال کر رہا ہے کہ کیا اسکا اور اسکے ہم وطنوں کا خون اتنا ہی ارزاں ہے کہ یوں کسی کو بھی دہشتگرد کہہ کہ بربریت سے مار دیا جائے ؟
یوں آن کی آن میں کسی کا پورا خاندان برباد کر دیا جائے ؟ دل چاہتا تھا اس شخص کی گریہ زاری پر آنسو بہاوں ، اسکی بے بسی پر اشک بار ہو جاؤں ک مگر اچانک مجھے جھٹکا لگا کہ وہ شخص جو اس وقت چیخ چیخ کہ ساہیوال سانحہ پر حکومتِ وقت کو مجرم قرار دے رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ پچھلے دس سال “صوبہ پنجاب ” پر مسلسل حکومت کرنے والا انسان ہے جنہوں نے “پنجاب پولیس” ایک ادارہ بنانے کی بجائے ایک “گالی” بنا دیا یہ پولیس اب وہ ادارہ بن چکاہے جس کی جبلت میں رشوت خوری سے لیکر مجرموں کی سرپرستی تک اور سیاسی بھرتیوں سے لیکر مظلوموں کو بلیک میل کرنے تک تمام خصلتیں شامل ہیں یہ وہ ادارہ ہے جسکے ماتھے پر ماڈل ٹاؤن , سانحہ قصور ، مخالف سیاسی کارکنوں کے قتل سمیت بے شمار کلنک کے ٹیکے آویزاں ہیں پنجاب کی عوام واردات ہونے کے بعد ایف آئی آر کٹوانے سے محض اسلیے گھبراتی ہے کہ کچھ تو وارداتیے لوٹ کرلے گئے اور باقی ماندہ پولیس والے چائے پانی کی غرض سے لوٹ لیں گے۔
پنجاب پولیس کا “گلو بٹ” چہرہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب پولیس کے اس رویے کاذمہ دار عثمان بزدار ہے یا عمران خان ؟ چونکہ آج قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی آو و بکا سے تو یونہی محسوس ہوا کہ رنجیت سنگھ کہ بعد پنجاب کا اقتدار سیدھا عثمان بزدار کی جھولی میں ہی گرا اور ہائے بد بخت بزدار آج تک پولیس میں اصلاحات نہ کر پایا !!!! سانحہ ساہیوال کے بعد جو بات انتہائی قابل تعریف تھی وہ تحریک انصاف کے حامیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کا رویہ تھا کیونکہ جہاں تک میری نظر پڑی کسی ایک شخص نے بھی اس واقعہ پر حکومت وقت کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سب کا یہی موقف تھا کہ اگر سانحہ ساہیوال کے مجرمین نشانِ عبرت نہ بنائے گئے تو موجودہ حکومت ہو بہو ویسے ہی ذلیل ہو گی جیسے کہ ان سے پچھلے ہوئے یہی وجہ ہے کہ حکومت پر اچھا خاصا دباؤ پڑا اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وعدہ کیا کہ قطر سے واپسی پر وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچائیں گے۔
اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ سانحہ ساہیوال کے مجرمان سزا پاتے ہیں یا پچھلے ادوار کی طرح اعلی عہدوں پر ترقی پاتے ہیں یا بیرون ملک بھیج دیے جاتے ہیں مگر اس ملک پر دہائیوں سے حکومت کرنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں اور انکے حمایت گان پر بہر حال آفرین ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان صاحبان نے تازہ تازہ “انسانیت” قبول کی ہے ورنہ وہ آنسو جو ماڈل ٹاؤن میں حاملہ عورت کے پیٹ پر سیدھا فائر کرنے پر نہ نکلے ، وہ آنسو جو نقیب اللہ کے قتل پر نہ چھلکے وہ آج اچانک کیسے رواں ہیں ؟ یہ وہی لوگ ہیں جنکے منہ سے آج سے پہلے پولیس کی کسی بربریت کسی نا اہلی پر ایک لفظ نہ نکلا اور آج یوں واویلا مچا رہے ہیں جیسے پچھلے کئی سال سے عمران خان حاکم اور یہ سب محکوم تھے۔
مجھے یقین ہے ساہیوال سانحہ پاکستان میں پولیس اصلاحات کا باعث بنے گا اور اس حوالے سے یہ ایک “ٹرننگ پوائنٹ” ثابت ہو گامگر جن مخالفین کی آنکھوں سے “سیاسی آنسوؤں ” کا طوفان رواں سے ان سے میری درخواست ہے کہ ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کہ دیکھنے کی کوشش کریں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ سب شاخسانہ آپ کے ہی عظیم طرز حکومت کا ہے نہ کہ اس میں عثمان بزدار یا عمران خان کا کوئی قصور ہے ہاں ایک اور بات کہ ابھی پانچ ماہ میں عمران خان سے پولیس جیسے ادارے میں اصلاحات مانگنا احمقانہ پن ہے مگر پھر بھی عوام مانگے تو مانگے دس سال کے حکمران، ماڈل ٹاؤن کے قاتلین کس منہ سے اصلاحات مانگتے ہیں ؟ انکو یہ معلوم نہیں شاید کہ جس روز اس ملک میں حقیقی معنوں میں انصاف ہوا سب سے پہلے انکا بوریا بسترا گول ہو گا اور انکی منزل پھانسی گھاٹ ہو گی لہذا انکو اصلاحات یا انصاف کی بات کرنے سے پہلے سو دفعہ ڈرنا چاہیے اپنے سیاسی آنسوؤں پر قابو رکھنا چاہیے اور اپنے اندر کی انسانیت کو اب اندر ہی دفن رکھنا چاہیے کیونکہ اب انسان بننے کا وقت گزر چکا۔