تحریر: ریا ض جاذب صوبوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کب ہونگے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ تو حکومتوں کے پاس ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے پاس عدالت حکومتوں کی طرف اور عوام عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔حکومت اور الیکشن کرانے کا آئینی ادارہ ECP دراصل دونوں الیکشن کے انعقاد میں مخلص نہیں آخر ایسا کیوں ہے ۔ لوگوں کو ان کا آئینی حق نہیں مل رہا اور کوئی ایک سال سے نہیں پورے چھ سال سے عوام اپنے آئینی حق سے محروم ہیں ۔بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ملکی حالات نہیں بلکہ حکومتوں کی بددیانتی ہے۔ یہ انتخابات کب ہونگے اس کا تو ہمیں بھی پتہ نہیں تاہم مقامی حکومتوں کی اہمیت ، اختیارات کی مرکزی سطح پر منتقلی کا فائدہ اور برصغیرپاک ہند میں اس کی تاریخ اس کی آئینی حیثیت کے حوالے سے زیر نظر تحریر سے قارئین کو یقینی طور پر ان تناظر میں گاہی ہوگی۔سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس خطہء جسے برصغیرپاک و ہند بھی کہا جاتا ہے میں بلدیاتی نظام کی تاریخی پس منظر کیا ہے۔
برصغیر و پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی تاریخ۔ برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی اداروں کا باقاعدہ آغاز انگریز راج میں ہی ہوچکا تھا، اس حوالے سے ابتدائی قوانین اور ایکٹ بھی اسی دور میں منظر عام پر آچکے تھے، لیکن بلدیاتی نظام یہاں کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود رہا ہے۔ 1688ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں میونسپل کارپوریشن قائم کی جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا انتظامی تجربہ تھا۔ 1842ء میں بنگال پریذیڈنسی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، یہ اولین ذمہ داریاں تھیں جو اس انتظامی ڈھانچے کو سونپی گئیں۔ اسی طرح کے انتظامی ڈھانچے چار برس بعد 1846ء میں کراچی میں بھی قائم کئے گئے۔ سرکاری انتظامیہ نے 1850ء میں ابتدائی طور پر لاہور اور امرتسر میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ 1862ئ میں برصغیر میں پہلا میونسپل ایکٹ منظورہوا۔
1882ء میں پہلی بار شہری اور دیہی مقامی حکومتوں کے حوالے سے لارڈ رپن کی حکومت نے قرار داد منظور کی۔ 1925ء میں ”سائمن کمیشن” کے نام سے ایک بورڈ ترتیب دیا گیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ خودمختار مقامی حکومت کی گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور بہتری کے لئے تجاویز پیش کی جائیں۔ اس کمیشن کی تجاویز کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1935ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت نے صوبائی سطح پر مقامی حکومت کے خودمختار ڈھانچہ کی منظوری دے دی۔
Ayub Khan
پاکستان میں بلدیاتی نظام۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں 3 مختلف ادوار میں مقامی یا بلدیاتی اداروں کا وجود نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1958 سے 1969ء کے مختصر عرصہ میں نومولود مملکت، جمہوری اور فوجی حکومتوں کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ فوجی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو معطل کر دیا تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی کہ عوامی سطح پر ایک ایسا انتخابی حلقہ تشکیل دیا جائے جو جمہوریت کی عدم موجودگی سے پیدا ہو جانے والا خلا پْر کر سکے، اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے ساتھ فوجی حکومت کو جمہوری بنیاد بھی فراہم کرے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملکی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نظام ”بنیادی جمہوریت” کے نام پر متعارف کروایا جس کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ 1962ء میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔
بعدازاں پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں 1972ء سے 1977ئ تک بلدیاتی انتخابات کروانے یا ان اداروں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اوران اداروں کو مقامی انتظامی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد جنرل ضیاء الحق نے فوجی مارشل لائ لگایا تو انہوں نے بھی 1979ء میں دوسری بار بلدیاتی آرڈیننس کی مدد سے مقامی بلدیاتی اداروں کا نظام متعارف کروا کر بلدیاتی انتخابات کروائے جو عملی طور پر 1999ء تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔ضیائ الحق کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو بار حکومتیں بنیں لیکن اس دوران بلدیاتی ادارے کبھی فعال اور کبھی پابندیوںکے زیر عتاب رہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے پہلے سے رائج بلدیاتی اداروں کو توڑ کر مقامی حکومتوں کا نیا نظام متعارف کروایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں لفظ ”مقامی حکومت” کا استعمال کیا گیا اور اس سے مراد یہ تھی کہ تیسرے درجے کی حکومت کے اصول کو قبول کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگرچہ یہ نظام فوجی حکومت کی جانب سے سامنے آیا جس کے پیچھے کچھ ذاتی مفادات بھی تھے لیکن اس کے باوجود اس نظام میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور عوامی مسائل کے حل میں اس سے بڑھ کر کوئی مضبوط نظام تاحال موجود نہیں ل
Local Governments
مقامی حکومتوں کی اہمیت۔ مقامی حکومتوں کی اہمیت لوگوں کو روز مرہ کی بنیادی ضروریات فراہم کرتی ہے۔ یہ کمیونٹیز کے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی بھی کرتی ہے،مقامی حکومت دیہی علاقوں، دیہات، قصبوں یاشہروں میں رہنے والوں کی زندگیوں پرمثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔مقامی حکومت مقامی اتھارٹی کی ایک قسم ہے جس میں بنیادی تعلیم اور صحت کے حکام بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ علاقائی سطح پر بہتری لائی جا سکےـمقام حکومت کے ادارے اور نمائندے کمیونٹی کو جوابدہ ہو تے ہیں۔مقامی حکومتی نظام کا مقصد بجٹ کی شفافیت، سماجی احتساب، شہری آوازاور کارکردگی کی مینجمنٹ کے ذریعے سیاسی طور پر مستحکم معاشرے کی تخلیق کرنا ہے،افسر شاہی کے نظام کے بجائے تین سطحی حکومت یعنی ڈسٹرکٹ کونسل/ کارپوریشن۔میں تحصیل میں میونسپل کمیٹی۔ اوریونین کونسلز کا نظام۔
اس نظام میں مقامی طور پر منتخب رہنماؤں کا تعین کرنا اوربیرونی تعینات بیوروکریٹس کا اختیارکو ختم کرنابھی اہم ہے ۔محکمہ کے آپریشن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا حق دینا ورناقص کاردگی والے اداروں کی مقامی کونسلوں کی جانب سے کاروائی کرنامناسب طریقے سے رجسٹرڈ شہری گروپوں کی ایلوکیشن کرنا تا کہ وہ مقامی کونسلوں کے ‘ترقیاتی بجٹ تک براہ راست رسائی حاصل کر سکیں”بنیادی خدمات( میونسپل سروسز)کی براہ راست فراہمی”بلدیاتی نظام کوجمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے. دنیا کے ہر بڑے ملک میں بلدیاتی نظام قائم ہے.جہاں میئر اور کونسلرکے پاس شہر کے مکمّل اختیارات ہوتے ہیں۔بعض شہروں میں پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے،بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار رہیں انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی .جمہوریت کا مطلب ہے۔
عوام کی حکومت عوام کیلئے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ 21ویںصدی میں جمہوریت کی چمپئن جماعتیں اور جمہوری حکومت 200سالہ پرانا کمشنری نظام تھوپنا چاہتی ہیاور کمشنراور ڈپٹی کمشنر کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے اختیارات دے رہے ہیں۔تعمیر اور ترقیاتی کام بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے اور یہ کام بلدیاتی نمائندوں کا ہے، ایم این اے اور ایم پی اے کا کام نہیں۔بلدیاتی نظام عام آدمی کی دسترس میں ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی بدولت ہی حل کرسکتا ہے،عوام کے دیرینہ مسائل کاحل بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات میں ہیں۔ حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچھلی سطح پر عوام کو منتقل ہوجائیں گے جس سے ان کے ایم این ایز اور ایم پے ایز کی اہمیت کم ہوجائیگی۔سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن سکتے ہیں کیوں کہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے اور ان کا وجود ان کے لئے جمہوریت کے تسلسل کے احساس کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام میں براہ راست شرکت کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ بلدیاتی ادارے کے ذمہ داران سے عوام اپنے اپنے علاقوں میں براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔
Delayed
جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبر سے ممکن نہیں۔ لیکن برا ہو ہمارے ہاں رائج بد عنوانی اور وسائل پر قابض اور اپنے دسترس میں رکھنے کی خواہشات کا جو سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے گریز کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کے شہری علاقوں میں صحت وصفائی کی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔ بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کا ہی ساخشانہ ہے۔ بلدیاتی نظام ہو تا تو شہر کایہ حال نہ ہو تا ،وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک میں فوری طورپر بلدیاتی انتخابات کرواکر شہری سہولتوں کا نظام مقامی حکومت اوران کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے۔
ختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ایک آئینی تقاضا۔ حکمرانوں کا طرز سیاست ہے کہ یہاں اختیارات صرف بڑے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئے ،عوامی نمائندے اختیارات کی عوام تک منتقلی سے گھبراتے ہیں۔ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا ایک متفقہ آئین بھی ہے، قانون بھی ہے، محکمہ جات بھی قائم ہیں۔ مسائل کا گلہ دبانے کے لیے مجاز افسران بھی ہیں،قدغن لگانے، جرائم کی روک تھام، عوامی شکایات کے ازالے اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ادارے اور منتخب نمائندے بھی موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سسٹم ڈلیور نہیں کررہا،عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ کیوں نہیں مل رہا؟
اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں سب سے بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح پر عدم منتقلی ہے، مرکز صوبوں اور صوبے اضلاع کو اختیارات منتقل نہیں کر رہے۔ یہ عجیب تضاد ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاق سے صوبوں کو اختیارات تومنتقل کر دئیے گئے۔ مگرمرکزی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرنے سے پہلو تہی کررہی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا قانونی تقاضا ہے جس کی صراحت آئین کرتا ہے، صوبے پابند ہیں وہ مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے ضروری قانون سازی کریں۔ منتخب اداروں کو درکار ضروری وسائل اور انتظامی اختیارات تفویض کریںتا کہ عوام کو ان کی دہلیز پر سہولیات میسر ہو سکیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کیاعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اختیارات کی عدم مرکزیت کا اصول اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح ہے جس کے تحت وفاقی اکائیوں کو 1973 آئین میں دی گئی ضمانت کے تحت بالآخر خودمختاری تو دے گئی۔
National Assembly
لیکن اراکین قومی اسمبلی اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی سے زیادہ افتتاحی تختیاں لگوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دے کر ٹھیکیداری کا چسکا لگادیا گیا۔ کمیشن کے نام پر کمائی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہے حقیقت یہ ہے مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں رقم بٹورنے کے سواکوئی دوسری رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ یوں صوبوں میں برسراقتدار ریاستی جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں، لیکن انہیں شاید یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی میں پاکستانی جمہوریت کی مثال کسی ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہی نہیں۔ یہ طے ہے حکومتوں کی کامیابی عوامی مسائل کے ادراک اور حل میں ہے۔ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومت کو جہاں اپوزیشن جماعتوں سے بے تحاشاتنقید کا سامنا ہے وہاں اگر وہ کھلے دل سے سوچے۔ وہ اس ملک، اس عوام کے مسائل کے حل کا بیڑا حقیقی معنوں میں اٹھا لے۔ وہ اختیارات کی حقیقی منتقلی یقینی بنا دے۔ وہ بلدیاتی انتخابات کراکر اس کے ثمرات کو عام آدمی تک پہنچا دے تو مجھے یقین ہے حکومت ہر طرح کے سیاسی بحران سے نکل آئے گی۔ اس سے نظام بھی مضبوط ہو گا۔