تحریر:ایم آر ملک جنوبی پنجاب کے سرداروں ،جاگیرداروں ،وڈیروں ٍ،رسہ گیروں نے یہاں کے عوام کو ازل سے غلامانہ سوچ میں جکڑنے کیلئے ہمیشہ سماجی برتری کے گھمنڈ اور غرور سے اپنی حیثیت اور شناخت کو آویزاں کیا جنوبی پنجاب کے بااثر لیگی سرداروں ،ممبران اسمبلی نے چھوٹو گینگ کی غنڈہ گردی کو اقتدار کے ہاتھوں پروان چڑھاکر جوان کیا ،وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کایہ انتباہ کہ ”شیر علی گورچانی اُس کے والد پرویز اقبال اور مزاری سردار کو باور کرایا جاتا ہے کہ فوج آپریشن کرنے والی ہے سر پرستی کرنا چھوڑ دیں ” اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ان سرداروں نے جنوبی پنجاب کے عوام پر اپنی حکمرانی کا مکروہ خواب پورا کرنے کیلئے چھوٹو اور بوسن جیسے گینگ پالے اپنے ان لے پالک غنڈوں کے خوف سے عوام کی رائے کو یر غمال بنایا اور الیکشن میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ۔
یہی نہیں ان لے پالک غنڈوں کے ہاتھوں شریف شہریوں کو اغوا کرایا ،اور برس ہا برس سے یہ ریہرسل چل رہی ہے ،معیشت کا متوازی نظام قائم ہوا اور کروڑوں روپے اغوا برائے تاوان کی رقم سے ان کی جیبوں میں گئے ،بارہا آپریشن کے نام پر مظلوم عوام کے احتجاج کے سامنے بند باندھنے کیلئے بے گناہ پولیس اہلکاروں کو اپنے ان غنڈوں سے مروا کر آپریشن کی ناکامی پر لکیر کھینچی ،ذارائع ابلاغ چیخ چیخ کر ان مجرم سرداروں کے گھنائونے کرتوتوں کی نشان دہی کر رہے ہیں مگر اِس بار شاید ایسا نہ ہوسکے کہ پاک آرمی کا جرنیل مصمم ہے جنوبی پنجاب کے معروف صحافی ظفر آہیر نے عرصہ پہلے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو خوب نبھایا حقیقی صحافت حب الوطنی ہے اور جان جوکھوں میں ڈال کر خطرات سے کھیلنا ،حقائق کا کھوج لگانا، ظفر نے یہی کیا وہ چھوٹو گینگ کی کمین گاہوں میں پہنچ کر سچ کو تراش لایا اُس ڈاکو منٹری کو جوظفر آہیر نے ان ڈاکوئوں سے انٹرویو کے دوران بنائی کو نام نہاد ٹی وی چینلز نے بے نام کرکے چلایا یہ کریڈٹ ظفر آہیر کو جاتا ہے
اُس نے جنوبی پنجاب کے سرداروں کا اصلی چہرہ بھی بے نقاب کیا نشیبی علاقہ کی گینگ وار کو طشت ازبام کیا ،پاک چائنا اقتصادی راہداری کو منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے پاک آرمی نے ضرب آہن کے نام پر ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کی جو ٹھانی تو پنجاب کے اس برسر ِ اقتدار گروہ نے پنجاب پر مسلط کئے گئے ایک نا اہل آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا کے ذریعے جنوبی پنجاب کے اضلاع کے نہتے اور متقاضی سامان حرب سے محروم پولیس اہلکاروں کو اپنے لے پالک ایسے گروہ کے مد ِ مقابل اُتارا جو عصر ِ حاضر کے متقاضی اور غیر ملکی اسلحہ جس میں LMG,RPG,وگرس (انڈین گن )اور 14.7ایئر کرافٹ گن جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس تھا
IG Punjab
اسلحہ کے متعلق علم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ RPGٹینکوں تک پر فائر کی جاتی ہے اور 14.7وہ ایئر کرافٹ گن ہے جو جہاز کو مار گرانے کیلئے استعمال میں لائی جاتی ہے جزیرہ میں بیٹھا وطن اور انسانیت دشمن گرہ اگر ایک گن بھی اپنی طرف آنے والی کشتی پر استعمال کرتا تو تو کشتی پر سوار کسی بھی شخص کیلئے زندہ بچنا محال تھا مگر آئی جی پنجاب نے جان بوجھ کر اور دانستہ ایک ایسے نشیبی علاقہ میں پولیس کو بغیر پلاننگ کے زبردستی دھکیلا جہان چاروں طرف پانی کی بہتات تھی اور زمینی رستہ ممکن ہی نہ تھا اس ایریا میں جو نوجوان اُترے اُن کے پاس بلٹ پروف کشتی تک نہ تھی اور جو ناقص بلٹ پروف جیکٹیں اُن کو دی گئیں اُن میں پہلی گولی پار ہوجاتی ہے شہید پولیس اہلکاروں کے پاس اس کے سواکوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اُس عام کشتی پر اس جزیرہ میں داخل ہوتے جو عام استعمال کیلئے کی جاتی ہے ان تمام خطرات سے علم اور وسائل کی کمی ہونے کے باوجود نا اہل آئی جی پولیس نے ان اہلکاروں کو انکار کی صورت میں نوکری سے فراغت اور مقدمات کے اندراج کی دھمکی دیکر موت کے سفر پر روانہ کیا اُن بہادر پولیس والوں کو داد دئے بنا چارہ نہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی دلدل میں اُتر گئے اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بہادری سے لڑے
خادم اعلیٰ کو 2014میں جعفر خان لغاری نے باقاعدہ شیر علی گورچانی اور عاطف مزاری کی سر پرستی کی اطلاع دی مگر خدمت کا جذبہ جانے کہاں سو گیا پولیس کے نوجوانوں کی شہادت اور کثیر تعداد کا اغوا بھی ان سہولت کاروں کی وجہ بنا 2010میں جب وفاق میں زرداری اور پنجاب میں خادم اعلیٰ کا راج تھا اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اتنی بڑھیں کہ شہریوں کیلئے گھروں سے باہر قدم رکھنا ممکن نہ رہا 25مئی 2011کو نشیبی علاقہ کی ایک چوکی ”عمرانی چوکی ”پر ہونے والے حملہ میں راجن پور کا ایک اے ایس آئی ندیم بالا چانی شہید شہید ہوا اور ڈاکو سات پولیس اہلکاروں کو اغوا ء کر کے ساتھ لے گئے جنہیں مذاکرات کے ذریعے بھی ان ڈاکوئوں کے ایک سہولت کار نے چھڑایا ،6جولائی 2013کو چھوٹو نے کچھی جمال پولیس چوکی پر ساتھیوں کے ہمراہ حملہ کیا اور 9پولیس اہلکاروں کو ہر غمال بناکر اپنے ساتھی چھڑائے
Operations
ان سہولت کاروں نے کہاں کہاں اغوا برائے تاوان میں اُٹھائے گئے افراد سے اِ س لے پالک گینگ کو معاوضہ نہیں دلا یا اور اپنا حصہ وصول نہیں کیا 2013 میں سوئی گیس کے ملازمین اغوا ء ہوئے یا یا چینی انجنیئروں کی ٹیم کو اس گینگ نے اُٹھایا مغویوں کو رہائی ان سرداروں کے توسط سے ہی ملی اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ان سرداروں اور سیاست کی غلاظت نے جنوبی پنجاب میں اس پولیس آفیسر کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا جو محب ِ وطن اور عوام دوست بن کر ان سہولت کاروں کے غلیظ ارادوں میں مزاحمت بنا 2010میں جب اس گینگ نے 8پولیس ملازمین کو اغوا کیا تو رحیم یار خان میں تعینات ایک دلیر اور نڈر پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ نے حتمی آپریشن کا فیصلہ کیا مگر اُوپر سے حکم صادر ہوا کہ مسئلہ وڈیروں کی مدد سے حل کیا جائے ان وڈیروں نے اپنے گماشتوں سے پولیس اہلکاروں کو تو رہا کرالیا لیکن جو پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ کی شکل میں اُن کے کارہائے اغوا برائے تاوان میں مزاحمت تھا کو تبدیل کر دیا گیا
تاریخ کی غلطی سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک بار پھر اُسے دہرایا گیا آپریشن میں شریک محب وطن اور فرض شناس پولیس آفیسرز رب نواز خان کھتران کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اُٹھانے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی گئیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ جن نہتے پولیس اہلکاروں کو اپنے لے پالک قاتل جنونیوں کے مد مقابل اُتارا جارہا ہے اُن کے پاس جو جیکٹیں اور ہیلمٹ ہیں وہ ایک گولی بھی برداشٹ نہیں کر سکتے اس طرح آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی جھوٹی انا ،ضد اور ہٹ دھرمی سے نہ صرف 14اہلکار شہید ہو گئے بلکہ 24نوجوان اغوا بھی کر لئے گئے مائوں کی گود اجاڑنے کا ذمہ دار آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا ہے جس نے دانستہ طور پر ان نہتے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکالنے اور مقدمات کی دھمکی دیکر موت کی دلدل میں دھکیلا آئی جی پنجاب پر قتل کا مقدمہ بننا چاہیئے دوسری طرف ان شہدا کے گھروں میںجاکر چیک بانٹ کر اُن کی لاشوں پر سیاست کی جارہی ہے مگر اُس احتجاج کو روکا نہیں جاسکتا جو مرنے والوں کے بچے اپنی پیشانیوں پر یتیمی کا داغ سجاکر اور پنجاب کے حکمرانوں کے خلاف کتبے اُٹھا کر جنرل راحیل شریف سے انصاف مانگ رہے ہیں یقینا ٍ پاک آرمی سہولت کاروں کے چہرے پر لپٹے منافقت کے جبر کو بے نقاب کرنے کا قدم اُٹھا چکی ہے بے گناہوں کے لہو سے رنگے ہاتھوں سے دستانے اُترنے والے ہیں