تحریر : رانا اعجاز حسین جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں دریا کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے سنگین جرائم میں ملوث بدنام زمانہ غلام رسول مزاری عرف چھوٹو، علی گل بازگیر’ چوٹانی’ مندرانی مریدا نکانی’ طارق عقیل بوسن اور دیگر گروہوں نے اپنی کمین گاہیں بنارکھی تھیں ۔ڈکیتی، اغواء برائے تاوان اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف صادق آباد’ رحیم یار خان’ راجن پور، تونسہ’ ڈیرہ غازیخان’ مظفر گڑھ ‘ملتان بلکہ پاکستان بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی تھی۔ ملک میں جاری آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے پیش نظر ملک کی سول و عسکری قیادت نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مربوط منصوبہ بندی اور آپریشنز کے ذریعے پنجاب سے بھی ان دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا مکمل صفایا کیا جائے گا۔ جس پر راجن پور کی تحصیل روجھان میں بڑے پیمانے پر ”ضربِ آہن” کے نام سے آپریشن شروع کیا گیا۔
راجن پور میں پولیس آپریشن کی ناکامی اور پولیس اہلکاروں کے کے بعد گزشتہ روز سے پاک فوج نے چھوٹو گینگ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا۔ ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں نے بمباری کی۔ قبل ازیں علاقے میں 4 کلومیٹر کے علاقے میں موجود مکینوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کر دی گئی تھی۔ فوجی دستوں نے چھوٹو گینگ کی کمین گاہوں کی طرف پیش قدمی شروع کی، جس پر چھوٹوگینگ کے 40 افراد نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ بدنام زمانہ چھوٹو گینگ میں بلوچستان کے فراری، ٹارگٹ کلر اور کالعدم تنظیموں کے کارکن شامل ہیں، جبکہ ان کے خلاف آپریشن کی نگرانی پاک فوج کے اعلیٰ افسر کور کمانڈر ملتان خود کر رہے ہیں۔ فوج نے چھ اضلاع کی پولیس کو واپس بھیج دیا ہے، صرف ضلع راجن پور کی پولیس کو ساتھ رکھا گیا ہے۔
Security Forces
ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر ہیلی کاپٹرز سے شیلنگ اور بمباری کی گئی ہے۔ سول حکومت اور عسکری قیادت کا فیصلہ ہے کہ ہتھیار ڈالنے کے علاوہ چھوٹو گینگ کا کوئی اور مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائیگا۔اس آپر یشن کے دوران چھوٹو گینگ کے ڈپٹی کمانڈر سمیت پہلوان عرف پلو ، علی گلباز گیر سمیت سات افراد مارے جاچکے ہیں اور کئی زخمی ہیں۔ آپریشن کی ابتداء میں7 پولیس ہلکار بھی شہید ہوئے ، چھوٹو گینگ کے خلاف فوج کی آمد سے مقامی لوگ خوش ہیں۔ پاک فوج کی آمد پر سونمیانی میں علاقہ مکینوں نے فوج کے حق میں نعرے لگائے اور خوشی کا اظہار کیا۔ ایک ہزار سے زائد پاک فوج کے جوان اور پانچ سو کے قریب چولستان رینجرز کے جوانوں نے فیصلہ کن کارروائی کیلئے مورچہ بندی کر لی گئی ہے۔ پاک فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سپیشل کمانڈوز کو بھی کچہ کے علاقہ میں منتقل کر دیا گیا جبکہ رینجرز کے جوانوں نے جزیزہ نما کچہ جمال کے اطراف میں گشت کرنا شروع کردیا ہے۔
آپریشن کی کمان کرنے والے پاک فوج کے کمانڈر کی جانب سے چھوٹو کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں کو غیر مشروط طور پر رہا کردے۔ پاک فوج اور رینجرز کے جوانوں نے چوکیاں قائم کرکے باقاعدہ پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن میں پنجاب پولیس کی حکمت عملی ناقص رہی جس پر پاک فوج کو کنٹرول سنبھالنا پڑا ، پاک فوج کی جانب سے آپریشن ضرب آہن کے آغاز کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوی امید کی جارہی ہے کہ برس ہا برس سے دہشت گردوں کے زیر تسلط یہ علاقہ بہت جلد یہ علاقہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
راجن پور کے اس وسیع و عریض علاقے کو دہشتگردوں نے یرغمال بنا رکھا تھا،جبکہ پنجاب پولیس اس علاقے سے دہشتگردوں اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہو چکی تھی، ملک دشمن عناصر کو وہاں کے انتہائی بااثر گنے چنے افرادکی سرپرستی کی افواہیں زبان زدعام ہیں۔ مجرم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا’ اس وقت تک طاقتور نظر آتا ہے جب تک ریاستی مشینری کمزوری اور مصلحتوں کا شکار ہو۔ ماضی میں ہر آپریشن اس خوف سے معطل ہوا یہ کہ گینگ مزید نقصان کر سکتا ہے۔ علاقے کے عوام جانتے ہیں کہ ڈاکو اپنی وارداتوں کے بعد ڈکیتی کے سامان’ تاوان اور بھتے کی رقم سے بااثر سرداروں کے علاوہ پولیس و انتظامیہ کے کرپٹ عناصر کی تواضع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین سے بھی نمٹتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بناہ پران ڈاکوئوں کی متوازی حکومت عرصہ دراز سے قائم تھی مگر آج تک کسی حکومت اور پولیس و انتظامیہ نے اس کے قلع قمع کے لیے فوج او رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔حتیٰ کہ ہوٹل’ پٹرول پمپ’ بڑے کاروباری اداروں کے مالکان اپنے بچوں کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوئے مگر روک تھام کی سنجیدہ کوشش اب ہو رہی ہے۔
Rangers
فوج اور رینجرز کی موجودگی سے لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ شائد مقابلے کی نوبت نہ آئے کیونکہ اب چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو سرنڈر کے علاوہ موت ہی نظر آ رہی ہے۔ تاہم زندہ گرفتاری کی صورت میں اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کا قلع قمع ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی سرداراور پولیس افسر، ان جیسے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی نہ کرسکے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنوبی پنجاب کے جس علاقے میں آپریشن ہو رہا ہے وہاں سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کرنے والے ایسے علاقوں میں سہولت کار تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، جو گنجان آباد شہروں میں واقع ہوں اور جن کے متعلق گمان بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں بھی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
اس لئے معاشرے کے ہر فرد کو اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داری زیادہ ہوش مندی سے نبھانا ہو گی اور اپنے گردو پیش ہر قسم کے لوگوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا ہوگی، اپنے شہر، گاؤں ، محلے اور گلی میں اجنبی لوگوں کے چہروں کو پہچاننا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ ان کی مصروفیات کس نوعیت کی ہیں، مشکوک چال چلن اور مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع فوری طور پرقانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ضروری ہے۔ آج ہر ہر پاکستانی کو اپنی زمہ داری نبھاتے ہوئے عہد کرنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ ہیں۔ اور وہ ملک سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے اور ایک پائیدار ریاست کے قیام کے لئے معاون بنیں گے ، جہاں قانون کی بالا دستی ہوگی اور جہاں کوئی قانون سے بالا دست نہ ہوگا۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033