تحریر : سالار سلیمان وہ لڑکے اس لڑکے کے پیچھے بھاگ رہے تھے، وہ اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا لیکن اچانک ہی ڈنڈے کی زور دار ضرب نے اُس کو رُکنے پر مجبور کر دیا۔ اُس کے رکنے کی دیر تھی کہ پیچھے موجود گروہ اُس پر پل پڑا۔ اُنہوں نے اُس کو ڈنڈے مار مار کر گرایا اور پھر اُس پر پل پڑے۔یہ ویڈیو کسی لڑکی نے بنائی تھی’جس میں اُس لڑکی کی آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ مت مارو، یہ مر جائے گا، نہ مارو۔۔۔!! یہ ویڈیو جامعہ پنجاب کی تھی جس میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پشتون اسٹودنٹس فیڈریشن کے مابین لڑائی کا معاملہ ہے ۔یہ لڑائی ہوئی کیسے؟ کیا ہوا؟ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کی تفصیل غیر جانبدار ذرائع سے جو مجھے ملی’ وہ آپکی خدمت میں پیش ہے۔
جمعیت ایک حقیقت کا نام ہے اور جامعہ پنجاب جمعیت کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔ یہ نہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بڑائی ہے۔ایم اے او کالج لاہور میں ایم ایس ایف ہے، گوجرانوالہ میں اے ٹی آئی ہے،اسی طرح ہر سرکاری جامع میں کوئی نہ کوئی اسٹوڈنٹ یونین موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے یونین کے انتخابات پر پابندی ہے ،اس حوالے سے کیس عدالت میں ابھی تک چل رہا ہے ۔یہاں یہ نقطہ میں واضح کر دوں کہ یونین کے انتخابات پر پابندی ہے لیکن یونین پر کوئی پابند ی نہیں ہے لہذا آغاز میں ہی جمعیت کے پنجاب یونیورسٹی کے وجود کا جواب لکھ دیا ہے تاکہ باقی کی ساری بات سمجھنے میں آسان رہے ۔
جامعہ پنجاب میں پشتون اسٹودنٹس فیڈریشن نے ‘پشتون ڈے ‘ منانے کا فیصلہ کیا۔اس سے قبل بلوچی بھائی اپنا دن منا چکے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگوں نے بھی اُس میں شرکت کی تھی ۔اس پروگرام میں پی ایس ایف نے صوبائی وزیر برائے ہائر ایجوکیشن کمیشن سید علی رضا گیلانی کو بطور مہمان بلایاتھا۔ میری اطلاعات کے مطابق وزیر کا بطور مہمان آنا کنفرم نہیں تھا لیکن مختلف تعلقات کی وجہ سے وہ تھوڑی دیر کیلئے تشریف لائے۔
دوسری جانب اسلامی جمعیت طلبہ کا پروگرام ‘عزم ہمارا پاکستان’ بھی جاری تھا۔اسلامی جمعیت طلبہ ہر سال طلبہ کو مثبت انداز میں متحرک کرنے کیلئے مختلف مہمات کا انعقاد کرتی ہے۔ عزم ہمارا پاکستان بھی ایک ایسی ہی مہم ہے جو کہ پورے سال پر محیط ہے اور اُسی سلسلے میں جامعہ میں ایک تصویری نمائش جاری تھی ۔ یہ تصویری نمائش یوم پاکستان کے حوالے سے ‘عزم ہمارا پاکستان ‘ پروگرام کے ساتھ ہی تھی ۔ جب وزیر صاحب چلے گئے تو نماز ظہر کیلئے اذان دی جا رہی تھی ۔ پی ایس ایف کے کیمپ سے گانوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔ یہ آوازیں اذان کے وقت بھی آ رہی تھیں اور کافی اونچیں تھیں۔ جمعیت کے لڑکے اُس کیمپ میں گئے اور اُن سے درخواست کی کہ آپ برائے کرم گانوں کی آوازیں آہستہ کر لیں ‘ اذان ہو رہی ہے ۔ یہ بات نجانے کیوں اُن بھائیوں کو بڑی لگی ،انہوں نے انتہائی بد تمیزی سے ناصرف انکا ر کیا بلکہ گالیاں تک دینا شروع کر دی۔ بات تو تکار سے ہوتی ہوئی دست و گریبانی کی جانب چلی گئی ۔اس کے بعد پی ایس ایف کے لڑکوں نے سامنے جاری تصویری نمائش پر دھاوا بولا، اُس کو تلپٹ کیا، وہاں موجود کرسیوں کو توڑا، کیمپ کو آگ لگا د ی ۔جب جمعیت کے کیمپ کو آگ لگائی جا رہی تھی تب بھی جمعیت نے اُن کو آگ لگانے سے روکا لیکن وہ لڑکے نہ صرف پشتو میں گالیاں دے رہے تھے بلکہ جو بھی راستے میں آ رہا تھا ، اُس کو شدید تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ہاکیاں اور لاٹھیاں ایک گاڑی سے نکالی اور انتہائی منظم انداز میں مختلف اطرا ف میں نکل گئے۔ تصادم کے موقع پر پولیس اور یونیورسٹی کے گارڈز ہٹ چکے تھے اور وہ ایڈمن بلاک کی جانب چلے گئے ۔اب جب تصادم بڑھ گیا تو پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس بھی فائر کئے جن کا ہدف جمعیت کے وہ افراد تھے جو کہ وہاں موجود تھے۔
دوسری جانب اسلامی جمعیت طالبات کا پروگرام بھی جاری تھا۔ یہ پروگرام بھی پاکستان ڈے کے حوالے سے تھا۔ پی ایس ایف کے مشٹنڈے ہاکیوں اور لاٹھیوں سے لیس ہو کر اُس جانب چل دیے۔ انہوں نے اندر داخل ہو کر نہ صرف خواتین کو ہراساں کیا بلکہ اُن کے حجاب نوچے’ اُنہیں گالیاں دی’ اُن پر ہاتھ اٹھایا بلکہ وہاں پر موجود دو معزز اور نامور خواتین محترمہ سمعیہ راحیل قاضی اور فائقہ سلمان کو بھی دھکے مارے۔ پی ایس ایف کے لڑکے پشتو میں لڑکیوں کو گالیاں بھی دے رہے تھے اور آپس میں ہدایات بھی دے رہے تھے۔ اُنہوں نے اسٹیج بھی توڑا’ ڈائس بھی توڑا ‘ کرسیاں بھی توڑ دی اور وہاں موجود خواتین کو بھی زودوکوب کیا۔ پروگرام تلپٹ کرنے کے بعد یہ لوگ دوبارہ سے یونیورسٹی میں پھیل گئے۔
Punjab University
اس کے بعد پولیس نے ہاسٹل میں ایس پی کی موجودگی میں آپریشن کیا اور اسلامک سنٹر اور ہاسٹل سے جمعیت کے لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔ یہاں میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ گرفتاری سے پہلے پولیس کی موجودگی میں پی ایس ایف نے ایک نمبر ہاسٹل میں جمعیت کا قائم دفتر توڑا، اُس کے کھڑکیاں اور دروازے توڑے گئے اور اندر طلبہ پر تشدد کیا گیا ۔ اس کے بعد پولیس اندر داخل ہوئی ‘ جو کہ اُس سے پہلے ہاسٹل سے باہر ایس پی کی موجودگی میں کھڑی تھی اور جو طالب علم ہاتھ لگا ، اُس کو اُٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا ۔ اسی طرح اسلامک سنٹر کے ہاسٹل سے گرفتاریاں کیں اور بعد ازاں اوپر سے فون آنے کے بعد اُن لڑکوں کو جن کوہاسٹل سے گرفتار کیا گیا ، حوالات میں بند کر دیا۔ اس کے بعد پی ایس ایف کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی، جس میں جامعہ کے پی آر او نے پی ایس ایف کے لڑکوں کو مکمل گائڈ کیا کہ کیسے سوالات ہونگے اور اُس کے جوابات کیسے دیے جائیں گے۔ پی ایس ایف کے ان لڑکوں کو ڈی ایس پی خود پریس کلب لے کر گیا تھا اور اُس نے واضح کیا تھا کہ مجھ پر پریشر ہے کہ اِن کی پریس کانفرنس کروائی جائے۔
اب یہاں پر ایک نہیں بلکہ کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ پوری دنیا میں پختون کلچر ڈے کہاں منایا جا رہا تھا؟ کیا یہ دن خیبر اور بلوچستان سمیت سندھ اور پنجاب میں منایا گیا یاں صرف کسی خاص سازش کے تحت ایک جامعہ میں منایا گیا ہے؟
صوبائی وزیر کو کون اور کیسے اِس پروگرام میں لایا؟ پولیس کی بسیں اور گاڑیاں تصادم سے پہلے ہی جامعہ میں کیا کر رہی تھیں؟ اگر پی ایس ایف نے انتظامیہ سے اجازت لی تھی تو اُنہوں نے وہ اجازت نامہ کیوں نہیں دکھایا ہے؟ پی ایس ایف کے پروگرام میں آؤٹ سائڈرز کہاں سے آئے؟ جس گاڑی میں ڈنڈے تھے وہ کیسے یونیورسٹی گارڈز کی موجودگی میں پی ایس ایف کے کیمپ تک پہنچی؟ جس وقت تصادم ہو رہا تھا تو پولیس کیوں بھاگ گئی اور اُس کو بھاگنے کا آرڈر کس نے دیا اور پھر کس کے حکم پر لاٹھی چارج اور آنسو شیل فائر کئے گئے؟ ایک نجی ریسٹورانٹ نے کیوں ایک لسانی بنیادوں پر ہونے والے ایونٹ کو اسپانسر کیا؟ جامعہ کی انتظامیہ نے کیوں لسانیت کے نام پر ہونے والے پروگرام کے اخرجات ادا کئے ؟ پولیس ہاسٹل نمبر ایک کیا کر رہی تھی؟ جب ہاسٹل نمبر ایک میں تو ڑ پھوڑ جاری تھی تو پولیس خاموش تماشائی بن کر کیوں کھڑی رہی؟ یونیورسٹی کے گارڈز کیا کر رہے تھے؟ جامعہ کا پی آر او کس حیثیت سے پی ایس ایف کی پریس کانفرنس کا انعقاد کروانے گیا تھا؟ پی آر او نے کیوں ایک مخصوص گروپ کو ہدایات جاری کیں؟ میڈیا نے کس کے حکم پر انتہائی جانبدار قسم کی رپورٹنگ کی ؟
کیمپ بھی جمعیت کا جلا ہے’ لڑکے بھی جمعیت کے زخمی اور ہسپتال میں ہیں ‘ کارکنا ن جمعیت کے گرفتار ہیں لیکن میڈیا بھی گندی بھی جمعیت ہو رہی ہے ۔ پولیس اور انتظامیہ تب کہاں تھی جب طالبات پر حملہ کیا گیا، اُن کو گالیاں دی گئیں؟ اُن کو مارا گیا؟ اُن کو دھکے مارے؟ اُن کے حجاب نوچے۔ اِن کو ذرا بھی شرم نہیں آئی کہ ہم قوم کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ مزید کہ ہماری ماں برابر آپا سمعیہ کو بھی نہیں بخشا؟ غضب خدا کا کہ پھر بھی پی ایس ایف مظلوم ہے؟ یونیورسٹی بھی اس کو لسانی مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اُس کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اگر یہ مسئلہ لسانی بن گیا تو کتنی لاشیں گریں گی؟ کوئی یہ بھی دیکھے کہ اذان کے احترام کا کہا گیا ہے تو کون ہیں وہ جو اذان کا احترام نہیں کرنا چاہ رہے؟ کون ہیں وہ جنہوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پوسٹرز جلائے ہیں ؟ کیا یہ پاکستانی ہیں؟ میں پی ایس ایف کی تاریخ میں نہیں جانا چاہتا لیکن جو کچھ ابھی ہوا ، کوئی ہے جو میرے ان سوالات کے جواب میںمدلل بات کرے۔
حکومت ایک آپریشن ذرا پنجاب یونیورسٹی کے اطراف میں برکت مارکیٹ اور گارڈن ٹاؤن کے فلیٹس میں کرے، ایک دم ہی وہاں پر اتنی بڑی تعدا د میں پشتون کیا کر رہے ہیں؟ ان فلیٹوں میں آتشی اسلحہ کس کے حکم سے اور کیسے پہنچا ہے؟ میڈیا میں تو سابق وی سی مجاہد کامران کے چمچوں اور گماشتوں نے نمک حلال کیا ہے۔ مجھے خود ایک رپورٹر دوست نے بتایا ہے کہ اُس کے سامنے ایک رپورٹر کو مجاہد کامران کی کال آئی ہے اور اُس نے کہا کہ ہاں بھئی’ کیسا لگا پھر؟؟؟ کام سیٹ ہو گیا ہے ناں؟ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے سابق رئیس جامعہ قہقہے لگا رہے تھے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ یہ سب کچھ سابق وی سی نے موجودہ وی سی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کیلئے پلان کیا تھا تاکہ دوبارہ سے وہ وی سی بن کر جامعہ میں گند گھول سکیں۔ موجودہ وی سی سے میڈیا نے پوچھا کہ یہ جمعیت نے کیا ہے تو آپ کیا ایکشن لیں گے؟ اُنہوں نے بہت ہی شاندار جواب دیا کہ جامعہ کے گیٹ کے اس طرف سب طلبہ برابر ہیںاور جس نے بھی یہ کیا ہے اور جو بھی اس میں ملوث ہیں ‘ اُن کو سزا دی جائے گی۔ میڈیا سے سوال ہے کہ یہ آپ کا مقد س پیشہ ہے؟ یہ آپ کی رپورٹنگ ہے؟ یہ آپ کی خیر جانبداری ہے؟ وہ تو خدا خیر کرے بلال قطب صاحب اور قطب آ ن لائن کی ٹیم کا جنہوں نے تصویر کا دوسرا رُ خ دکھایا، ورنہ جیسا میڈیا ٹرائل کیا جارہا تھااُس سے میڈیا میں جمعیت کو ہی مجرم بنا دیا گیا تھا۔ موجودہ وی سی صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ جو بھی ذمہ دار ہو’ اُس کو منظر عام پر لایا جائے، تمام واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے۔ ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے جو کہ تمام تر واقعات اور حقائق کی جانچ کر کے اپنی رپورٹ مرتب کرے اور وہ رپورٹ پبلک بھی کی جائے تاکہ قوم کو بھی معلوم ہو سکے کہ اگر جامعہ میں گملا بھی ٹوٹ جائے تو نام جمعیت پر کیوں لگا دیا جاتا ہے۔