تحریر : مجاہد خان جلبانی کہا جاتا ہے کہ تعلیم کسی بھی معاشرے کا زیور ہوتی ہے۔ اگر کسی معاشرے کی ترقی کااندازہ لگانا ہو اتواس معاشرے کا تعلیمی معیار دیکھا جاتا ہے۔ تعلیم ہی انسانوں میں رہن سہن اور زندگی گزارنے کا بہتر انداز سکھاتی ہے۔
دینا میں جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین سوچتے ہیں کہ ہمار ابیٹا پڑھ لکھ کر ڈاکٹریا انجئینربنے گ۔لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے غربت کا معیار اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔
والدین کی طرف سے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ جب ہمارابیٹا بڑا ہوگاتو وہ سعودی عرب میں جاکرکچھ 2،4پیسے کما کراپنے گھر کو خوشحال بنا سکے گا۔اور ہم لوگ امیر ہوسکیں گے۔ ١ورجب بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کی سوچ یکسر تبدیل ہوجاتی ہے کہ جب سعودی عرب میں جاکرہی کمائی کرنی ہے توپڑھ لکھ کر کیا کریں گے۔
ہمارے ہاں اکثریت نوجوانوں کی ایسی ہے جو اپنی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچی ہوتی ،وہ کچھ رقم بطور رشوت دے کر اپنا شناختی کارڈ بنوالتی ہے لیکنجب وہ لوگ سعودی عرب میں پہنچتے ہیں تو ان کو اس وقت اندازہ ہوتاہے کہ دور کے ڈھول سہانے،یہاں پردیس میں محنت مزدوری کرکے رقم اپنے گھر پاکستان بھجوانا کوئی اتناآسان نہیں۔
Saudi Arabia
یہاں پر ایک مصرہ یاد آرہا ہے کہ اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔سعودی عرب ضرور جانا چاہیے عمرہ اور حج کی ادائیگی کے لیئے یاپھر اچھی نوکری کے لیئے اب بھلا یہ کیا بات ہوئی سعودی عرب میں رقم کمانے کے چکر میں اپنی تعلیم ہی حاصل نہ کی جائے یا ادھوری چھوڑ دی جائے۔
افسو س کی بات یہ ہے کہ ہمارے سرائیکی خطے کے نوجوان جو اپنے گھر والوں ،دوستوںاور رشتہ داروں کو چھوڑ کر سعودی عرب میں جاتے ہیں۔شاید ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگ کتنی مشکل سے رقم کماتے ہیں۔ ۔جن کو ہم سونے کی مرغی سمجھتے ہیں۔
اس کا اندازہ آپ ان لوگوں سے پوچھیے کہ جن کے گھر والے پردیس میں ہیں کتنی مشکل سے محنت مزدوری کرکے رقوم اپنے گھروںکو بھیجتے ہیں اور گھر والے کتنی آسانی سے وہ فضول کاموں میں صرف کردیتے ہیں۔اب تو صورتحال یہ دیکھنے میں آئی کہ ہر گھر کے 2سے 3افراد سعودی عرب میں ہیں۔
کہنا کا مقصد صرف اتنا ہیے کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کی پہلی ترجیح یہ ہونی چائیے کہ ہم اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائیں ،تاکہ ان کا مستقبل روشن ہوسکے ۔ہمارے نوجوانوں کو بھی چایئے کہ وہ اپنے تعلیمی مستقبل پر بھر پور توجہ دیں اور پنے مستقبل کے بارے میں ایک بار ضرور سوچیں کہ انہوں نے سعودی عرب میں جاکر ساری زندگی محنت مزدوری تو نہیں کرنی۔
آج ملِے تھے پردیس میں تیر ے شہر کے لوگ بے ساختہ آنسو نکل پڑے تیرا حال پوچھتے پوچھتے۔