تحریر: طارق حسین بٹ شان یہ بات ہر مہاجر کے علم میں ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی دوسری قومیتوں سے نفرت کی بنیاد میں معرضِ وجود میں آئی تھی۔اس کا سب سے بڑا ہدف پنجابی اور پٹھان تھے۔ پنجابی کاروباری لحاظ سے کراچی میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور پھر پاکستان کا بڑا صوبہ ہونے کی جہت سے پنجابیوں کی اہمیت مسلمہ تھی۔ پٹھانوں میں اکثریت مزدور وں کی تھی اور ان کی عددی موجودگی اور باہمی اتحاد ایم کیو ایم ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا کیونکہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ایم کیو ایم کی انتخابی سیاست کو گرہن لگنے کے خطرات لا حق ہو سکتے تھے۔ پنجابی،پٹھان اور مہاجروں کے درمیان کئی عشروں تک جنگ و جدل ی کیفیت رہی اور بے شمار پنجابی کراچی چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے۔کراچی کی بد امنی نے لاہور کو بڑا شہر بننے میں مدد دی۔اگر کراچی کا امن متاثر نہ ہوتا تو لاہور اس قدر وسیع و عریض نہ بنتا جتنا اب ہے۔کراچی کی بدامنی سے دلبرداشتہ لوگوں کیلئے لاہور کسی جنت سے کم نہیں تھا اور لاہور نے واقعی جنتِ ارضی ہونے کا ثبوت دیا ۔کاروباری حلقے کراچی سے لاہور منتقل ہوئے تو دئکھتے ہی دیکھتے لاہور کی کاروباری،ادبی ،فلمی اور سیاسی سر گرمیوں میں بے پناہ تیزی آ گئی اور اب لاہور ہی پاکستان کا سب سے بڑا ثقافتی اور تہذیبی مرکز ہے ۔سندھیوں کے خلاف مہاجر شروع دن سے ہی تھے لیکن چونکہ سندھییوں کی اکثریت اندورونِ سندھ رہائش پذیر تھی اس لئے وہ ایم کیو ایم کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں تھے۔
ہاں اتنا ضرور تھا کہ پی پی پی کے پہلے دورِ حکومت میں وزیرِ اعلی سندھ ممتاز علی بھٹو نے زبان کے مسئلے پر اردو بولنے والوں کے ساتھ زیادتی کی تھی اور سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دے ڈالا تھا جس سے مہاجر وں اور سندھیوں میں گمسان کا رن پڑا تھا ۔اپوزیشن نے مہاجروں کا ساتھ دیا تھا لیکن حکومت چونکہ پی پی پی کی تھی اور اسمبلی میں اس کی واضح اکثریت تھی لہذا مہاجر بالکل بے بس تھے۔ان کیلئے سڑکوں پر احتجاج ہی ان کے اظہار کی سب سے مناسب جگیہ تھی اور انھوں نے سڑکوں پر احتجاج کی راہ اپنائی جس میں بے شمار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔یہ وہ وقت تھا جہاں مہاجر سندھی کو اورسندھی مہاجر کو اپنا دوست اور بھائی سمجھنے سے گریزاں تھا ۔ان میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان تھااگر چہ اکثرو بیشتر کیمرہ کے سامنے یہ دونوں ایک دوسرے کو مسکرا کر بھی ملتے ہیں لیکن دل میں جو نفرتیں تھیں انھیں مسکراہٹوں کے باوجود بھی چھپانا مشکل تھا ۔نفرتوں کی یہ یہ خلیج اتنی گہری ہوگئی کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھ دی جس نے ١٩٨٥ کے غیر جماعتی انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ایم کیو ایم کی اس جیت سے الطاف حسین ایک ایسے لیڈر کے روپ میں سامنے آئے جس کے ہاتھ میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تقدیر بند تھی۔
Targeted killings
ان کے ایک اشارے پر کراچی شہر کا بند ہو جانا روزمرہ کا معمول بن گیا۔اسی معمول سے بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ ،تاوان برائے اغوا اور بہت سے دوسرے جرائم نے جنم لیا جس نے شہرِ کراچی کے خوبصورت چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ۔ روشنیوں کا شہر اپنے ہی لہو میں نہانے لگا اور اس کے باسی اپنے پیاروں کے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک گئے۔اس سارے فساد کے پیچھے ایم کیو ایم کی نفرت کی وہی پالیسی تھی جسے الطاف حسین نے اپنے پیرو کاروں کے دلوں میں اتار رکھا تھا۔دن گزرتے گئے نفرتیں شدید ہو تی گئیں اور کراچی ایک زخمی پرندے کی طرح بے بسی کی تصویر بنا رہا۔ایم کیو ایم کی تشکیل کا سارا کریڈٹ ایک فوجی جرنیل ضیا الحق کو دیا جاتا ہے۔مہاجر چونکہ پی پی پی سے ڈھسے ہوئے تھے لہذا جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں پی پی پی کو شہری علاقوں سے بے دخل کرنے کیلئے ایک بڑے منصوبے کا پر کام شروع ہو۔الطاف حسین کوسٹوڈنٹ لیڈر ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم کی تشکیل کا ٹاسک دیا گیا۔اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ سارے مہاجر الطاف حسین کی قیادت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور یوں ایم کیو ایم کراچی میں مہاجروں کی نمائندہ جمارت بن کر ابھری ۔ ایم کیو ایم کی ساری طاقت اس نعرے میں ہے جس میں مہاجروں کو پانچویں قومیت کہہ کر اس کے حقوق کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ ،۔
اس وقت پاکستان عالمی سازشوں کا شکار ہے ۔پاک چائنا راہداری نے امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں ۔وہ اس راہداری کو ہر حال میں ناکام بنانا چاہتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے پاک ایران پائپ لائن کو کھڈے لائن لگا یا گیا تھا۔پاک ایران گیس پاکستان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ تھا لیکن امریکہ نے اس پائپ لائن منصوبے کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔انرجی کا ایک سستا اور بڑا منصوبہ امریکی مداخلت سے پایہ تکمیل کو پہنچنے سے محروم رہا جس کا بلا واسطہ نقصان صنعتی و حرفت کو اٹھا نا پڑا۔اس وقت انرجی کے فقدان سے کئی فیکٹریاں اور کارخانے بند پڑے ہوئے ہیں اور کساد بازاری اپنے جبڑے کھولے کھڑی ہے جس سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔چوری چکاری، ڈاکے، لوٹ ماراور چھوٹے موٹے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے جس سے عوام عدمِ تحفظ کا شکار بنے ہوئے ہیں۔
Altaf Hussain
پاکستان جہاں پر بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے وہاں امریکہ کی آنکھوں میں بھی کھٹک رہا ہے ۔دونوں میں اس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ پاک چائنا راہداری کا منصوبہ سبو تاج ہونا چائیے اور اس کیلئے انھوں نے بلوچستان اور کراچی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے ۔ کراچی کی حالیہ بے چینی اس ایجنڈے کے تحت ہے جو امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پائی ہے۔الطاف حسین تو اکثرو بیشتر بھارت سے مداخلت کی اپیل کرتے رہتے ہیں۔ابھی تو چند سال پہلے کی بات ہے انھوں نے تمام مہاجروں کو بھارت میں واپس قبول کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اس درخواست کو بھارتی حکومت نے رد کر دیا تھا۔بھارتی ایجنسی را سے ان کے خصوصی تعلقات کی دنیا شاہد ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی کئی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ق) سرِ فہرست ہیں نائن زیرو پر حاضری دینا اپنے لئے اعزاز سمجھتی تھیں ۔ انھیں حاضری دیتے وقت بھی علم ہوتا تھا کہ الطاف حسین بھارتی ایجنٹ ہے اور را کیلئے کام کرتا ہے لیکن پھر بھی ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی ان کی زبان پر نہیں آتا تھا ۔کیا محترمہ بے نظیر بھٹو ،آصف علی زرداری، سید یوسف رضا گیلانی اور میاں برادران نے نائن زیرو پر حاضری نہیں دی تھی؟جمہوریت میں سیاسی جماعتوں میں رابطے ہوتے ہیں لیکن ملک دشمن جماعتوں اور محبِ وطن جماعتوں میں خطِ امتیاز کھینچا جاتا ہے۔
کیا ایم کیو ایم محبِ وطن جماعت ہے یا اس کا مقصد پاکستان کے شیرازے کو بکھیر کر جناح پور بنانا ہے؟جناح پور ایک حقیقت تھی اور اب بھی ایک حقیقت ہے اور یہی ایم کیو ایم کا خواب ہے۔اسی خواب کی تکمیل کی خاطر سارے مہاجر ایم کیو ایم کے پرچم تلے متحد ہیں۔سب سے حیران کن بات جنرل پرویز مشرف کی ایم کیو ایم سے قربتیں تھیں۔سپہ سالار ہونے کی جہت سے انھیں مکمل خبر تھی کہ ایم کیو ایم ایک وطن دشمن تنظیم ہے لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم کو گلے لگایا گیا تھا کیونکہ اقتدار کی کشتی پر سوار ہونے کیلئے ایم کیو ایم کا ہاتھ تھامنا ضروری تھا۔ جہاں پر وطن سے محبت کی بجائے اقتدار پہلی ترجیح بن جائے وہاں پر وطن دشمن جماعتیں پھلتی پھولتی ہیں اور یوں وطن ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔پاکستان کی بدقسمتی ہے یہ ہے کہ اس کے حکمران وطن کی نسبت اپنے اقتدار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔مہنگائی،بد امنی،کرپشن،منی لانڈرنگ ،لوٹ مار،بھتہ خوری، قتل و غارت گری ،دھشت گردی اور شدت پسندی نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔اگر جنرل راحیل شریف ضربِ عضب شروع نہ کرتے تو اس ملک میں خون کی ندیان بہہ جاتیں۔یہ تو راحیل شریف کی بے لوث قیادت کا کمال ہے کہ ہم ابھی تک عراق،افغانستان ،لیبیا،یمن اور شام کی طرح کی صورتِ حال سے دوچار نہیں ہوئے۔کوششیں تو بہت ہو رہی ہیں لیکن پاک فوج ایسے تمام منصوبوں کی راہ میں آہنی دیوار بن کر کھڑی ہے۔اس کا غیر متزلزل عزم ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔،۔