تحریر : محمد جواد خان ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، کوئی بھی چیز بغیر مقصد کے نہیں بنائی گئی یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو ایک مقصد دے کر بھیجا ہے ، اور ہم نے وہ مقصد چھوڑ کر اپنے اپنے مقصد خود بنا لیے ہیں، ہماری عقل تو بہت چھوٹی سی ہے مگر ہمارے کارنامے بہت بڑے ، جب والدین اپنے بچوں کو ایک مقصد دیتے ہیں کہ بیٹا تم نے ڈاکٹر بننا ہے یا تم نے انجئنیر بننا ہے تو بچہ سمجھتا ہے کہ شاید وہ پیدا ہی اسی مقصد کی خاطر ہوا ہے ۔ پھر وہ بچہ صرف اسی مقصد کو لے کر دنیا میں چلتا ہے۔ ہمارا ماحول ہمیں یہ مقصد دیتا ہے کہ دنیا میں شہرت، عزت، دولت،اقتدار اور خواہشات کو پورا کرناہی مقصد ہے۔ ساری دنیا کے انسانوں کے اندر کو دیکھا جائے ، کنگھالا جائے ، ان چند چیزوں میں مرد اور عورت اٹکے ہوئے ہیں اور اس کو مقصد بنا کر چل رہے ہیں، ہر آدمی شہرت ، دولت، خواہشات کی تکمیل، لذتوں کا حصول چاہتا ہے۔
ان سب چیزوں کے گرد زندگی کا پہیہ بڑی تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ مال و زر کا تاجر ہو یا پھر وہ صحرا کا صحرائی ہو، ہم نے ایسی چیزوں کو مقصد بنا یا ہے جن کی نہ تو ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارا ضمیر اور نہ ہی اللہ نے ان کو ہمارا مقصد بنایا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو کیوں کر پیدا کیا گیا تو جواب ملتا ہے کہ “پھر ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ، تاکہ دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔(یونس ١٠:١٤) ہماری دنیا میں حیثیت اللہ کے نائب کی ہے، دنیا کی تمام طاقتیں ، اختیارات، مظاہر ، اجرام فلکی اور دوسری علامتیں صرف ایک ہستی کے لئے عدم سے وجود میں لائی گئی ہیں اور وہ ہستی انسان ہے۔
Priority
“اے انسانو۔۔! ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے اس میں ساماں ِ زیست فراہم کیے۔ “(اعراف ٧:١٠) زمین میں انسان کو دوسری مخلوقات سے الگ اور اشرف المخلوق بنا کر بھیجا اور صلاحیت اور ساخت دوسروں سے بالکل مختلف رکھی اور انسان کو دوسروں پر فوقیت دے کر نمایا ں خوبیوں کا مالک بنایا۔ اس طرح انسان کو خلافت ارضی د ے کر زمین کے سارے وسائل اور خزانے اس کے ہاتھ میں دے دیئے، دوسری مخلوق کو اسکا مطیع اور فرمان بردار بنا کر اس کے حوالے کر کے اس کو سب پر فوقیت نواز دی۔ماں باپ نے پیسے کی عظمت و فوقیت کے بارے میں لیکچر دیا ، سکول گئے تو ماسٹر نے نمبروں کی فہرست کھو ل کر رکھ دی، کالج و یونیورسٹی میں گئے تو پروفیسر نے سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت بیان کر دی ، باہر معاشر ہ میں گئے تو انسانی مقام مرتبے کے بارے میں کھل کر بیان کر دیا، غرضیکہ دنیا کی فوقیت کے بارے میں سن سن کرایک بات ہمارے اوپر ظاہر ہونے لگی کہ بس دنیا میں ہمارا مقصد صرف اور صرف “میں ” ہے ، دنیا سے متعلق چیزیں مقصد بن گئیں۔ نتیجہ کیا ہوا کہ ہماری محنت کامیدان غلط ہو گیا۔
غلط میدان میں چلنے والا کبھی اندر سے چین نہیں پا سکتا۔ ایک گاڑی مین سڑگ پر جا رہی ہے، اچانک وہ مین سڑک سے ہٹ کر کچے راستے پر چل پڑے تو گاڑی بھی چیخ اُٹھتی ہے ، گاڑی والے بھی چیخ اُٹھتے ہیں کہ مین سڑک سے گاڑی ہٹ گئی ہے۔ اپنے راستے ہے ہٹنا ایسے ہی ہے جیسے مین سڑک سے ہٹنا ہے اور کسی غلط راستے پر پڑ جانا ہے۔ جہاں کھڈے ہی کھڈے ہیں، مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں ۔آدمی جب تک اپنے مقصدکے حصول کی لگن میں اس حد تک نہ گم ہو جائے کہ اسے بقیہ تمام چیزیں بھو ل جائیں ۔ کسی اور چیز میں اس کے لیے لذت باقی نہ رہے۔ اس وقت تک وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ تمام بڑے لوگوں نے اسی طرح کام کیا ہے، اس کے سوا اور کوئی بڑا کام کرنے کا طریقہ نہیں۔جب تک کوئی آدمی کسی کام میں ہمہ تن مشغول ہوتا ہے تو اس وقت اس پر اس کام کے تمام چھپے ہوئے رازکھُلتے ہیں ، اسی وقت وہ اس کام کے تمام ضروری پہلوئوں پر توجہ دینے کے قابل بنتا ہے۔ اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ اس کی تمام فطری صلاحیتیں اس کے مقصد کے حصول میں لگ جائیں۔ یکسوئی اور لگن کے بغیر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
Role
اکثر لوگ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا کام نہیں کرتے۔ اسی لیے اکثر لوگ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔بامقصد گروہ کی نفسیات ہمیشہ یہی ہوتی ہے ، کہ وہ اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیے وہ ماضی کے تمام غم اور اندیشوں کو بھلا کر ہمہ تن اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ اور جب کوئی گروہ یہ صفات کھو دے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہیکہ اس گروہ نے مقصدیت کھو دی ہے۔ اس کے سامنے چوں کہ کوئی مقصد نہیں اس لیے اس کے افراد کا کوئی کردار ابھی نہیں۔ موجودہ دور میں ہماری قوم کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بے کرداری ہے ۔ جس میدان میں بھی تجربہ کیجئے، آپ فوراََ دیکھیں گے کہ لوگوں نے اپنا کردار کھو دیا ہے، ان کے اوپر کسی ٹھوس منصوبہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
جہاں بھی انھیں استعمال کیا جائے وہ دیوار کی اینٹ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ دیوار کی پختہ اینٹ ہونے کاثبوت نہیں دیتے۔اس کمزوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ آج ہماری قوم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے۔ وہ ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گے ہیں۔ ان کے سامنے نہ دنیا کی تعمیر کا نشانہ ہے اور نہ آخرت کی تعمیر کا نشانہ۔ یہی ان کی اصل کمزوری ہے۔ اگر لوگوں میں دوبارہ مقصد کا شعور زندہ کر دیا جائے تو دوبارہ وہ ایک جاندارقوم نظر آئیں گے۔ وہ دوبارہ ایک با کردار گروہ بن جائیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ایک باکردار گروہ بنے ہوئے تھے۔قوم کے افراد کے اندر مقصد کا شعور پیدا کرنا ان کے اند ر سب کچھ پیدا کرنا ہے۔ مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے، وہ اس کو نیا انسان بنا دیتاہے۔
M Jawad Khan
تحریر : محمد جواد خان حویلیاں، اصول و اسلوب ِ زندگی mohammadjawadkhan77@gmail.com