ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روسی صدر ولادمیر پوتین نے آرمینیا اور آذربائیجان کے وزراء خارجہ کو مذاکرات کے لیے جمعے کے روز ماسکو آنے کی دعوت دی ہے۔ دونوں ممالک اس وقت ناگورنو کاراباخ میں خون ریز معرکے میں مصروف ہیں۔
جمعرات کی شام کرملن ہاؤس سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ “آذربائیجان اور آرمینیا کے وزراء خارجہ 9 اکتوبر بروز جمعہ ماسکو مدعو کیے گئے ہیں تا کہ روسی وزارت خارجہ کی وساطت سے مشاورت عمل میں آ سکے”۔ بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد لڑائی کو روکنا اور قیدیوں اور مقتول فوجیوں کی لاشوں کا تبادلہ ممکن بنانا ہے۔ اس سے قبل روسی صدر پوتین آذربائیجان کے صدر الہام علییف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول باشینیان سے بات چیت کر چکے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا دونوں شخصیات نے ماسکو کی اس دعوت کو قبول کیا ہے یا نہیں۔
آذربائیجان کے وزیر خارجہ جمعرات کے روز جنیوا پہنچے جہاں انہیں یورپ میں امن اور تعاون کی تنظیم کے زیر انتظام مینسک گروپ (روس، فرانس اور امریکا) کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف پیر کے روز ماسکو میں اپنے آرمینیائی ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کو شروع ہوئے تقریبا دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ اس دوران اب تک شدید لڑائی میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آرمینیا نے جمعرات کے روز آذربائیجان پر الزام عائد کیا کہ اس نے ناگورنو کاراباخ ریجن میں ایک تاریخی کیتھڈرل کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بم باری کے وقت کیتھڈرل میں بعض بچے موجود تھے۔ اگرچہ یہ بچے بم باری میں زخمی نہیں ہوئے تاہم وہ شدید خوف و ہراس کا شکار ہو گئے۔
دوسری جانب آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کیتھڈرل پر حملے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوج تاریخی اور ثقافتی بالخصوص مذہبی عمارتوں اور آثار کو نشانہ نہیں بنا رہی ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کی افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا تھا۔ یہ ناگورنو کاراباخ کے حوالے سے کئی دہائیوں سے جاری تنازع میں اب تک کی سب سے بڑی جارحیت ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے آذربائیجان میں واقع ہے مگر یہ 1994ء میں علاحدگی کی جنگ کے اختتام کے بعد سے آرمینیا کی حمایت یافتہ آرمینیائی نسل کی فورسز کے زیر کنٹرول ہے۔
ناگورنو کاراباخ ریجن کی فوج کے مطابق 27 ستمبر کے بعد سے اب تک اس کے 350 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کی فوج نے اپنے عسکری نقصان کی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا ہے۔ البتہ دونوں جانب سے درجنوں شہری بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ علاقے سے آرمینیائی فوج کا انخلا ،،، فائر بندی کی مرکزی شرط ہے۔
ادھر آرمینیائی ذمے داران کا دعوی ہے کہ تنازع میں ترکی ملوث ہے اور وہ آذربائیجان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے شامی اجرتی جنگجوؤں کو بھیج رہا ہے۔ ترکی اعلانیہ طور پر اس تنازع میں آذربائیجان کی حمایت کا اعلان کر چکا ہے۔ تاہم اس نے علاقے میں جنگجو بھیجنے کی تردید کی ہے۔