روس (جیوڈیسک) روس کے صدر ولادی میرپوٹن نے اپنی اختتام سال پریس کانفرنس میں زیادہ تر وقت ملک کو درپیش اقتصادی مسائل پر گفتگو میں صرف کیا۔
روس تیل کی قیمتوں میں کمی اور یوکرین کی لڑائی کے باعث پابندیوں کی وجہ سے پچھلے دو سال کے دوران معاشی پیداوار میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی صورت حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور اس سال اقتصادی شعبے میں ڈیڑھ فی صد بہتری آنے کی توقع ہے، افرا ط زر اپنی کم ترین سطح پر ہے اور توقع ہے کہ وہ بہت جلد پانچ اعشاریہ چار فی صد کے سرکاری ہدف تک پہنچ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سرمائے کے بہاؤ میں کمی آئی ہے اور سن 2000 سے اجرتوں میں جاری کمی کی صورت حال پچھلے سال پہلی مرتبہ بہتر ہونی شروع ہوئی ہے۔
ماسکو میں قائم کارنیگی ماسکو سینٹر کے ایک عہدے دار اینڈری کولسنی کوف نے مسٹر پوٹن کی پریس بریفنگ پر اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ اچھی خبر ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ انہیں صورت حال کا درست طور پر ادراک نہیں ہے۔ معاشی کارکردگی کے متعلق کہے گئے تمام اچھے الفاظ کی حقیقت یہ ہے کہ چیزیں دراصل اتنی اچھی نہیں ہیں۔
اس سال مسٹر پوٹن کا معیشت پر توجہ مرکوز رکھنا پچھلے سال کی پریس بریفنگ کے الٹ ہےجب انہوں نے شام کی سرحد کے قریب ترکی کی جانب سے روس کا ایک جیٹ طیارہ مار گرائے جانے کے واقعے کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔
ترکی میں روسی سفیر کے قتل کے باوجود ، طیارہ مار گرائے جانے کے واقعے پر ترکی کے صدر کی جانب سے معذرت کے بعد ماسکو اور انقرہ کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
جمعرات کے روز ایک ترک پولیس افسر کے ہاتھوں قتل ہونے والے روسی سفیر اینڈری کارلوف کی یاد میں تقریت ہوئی۔ انہیں قتل کرنے والا اہل کار ڈیوٹی پر نہیں تھا اور اسے پولیس کے خصوصی دستے نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
حال ہی میں مشرقی حلب کے وہ حصے، جو باغیوں کے قبضے میں تھے، دوبارہ شام کی حکومت کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ شامی فورسز کی اس کامیابی میں ایران اور روسی کی مدد کا بھی عمل دخل ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور اس پر دوبارہ قبضہ صدر بشارالاسد کے لیے ایک بڑی علامتی فتح ہے۔
حلب کے شہریوں کے مقدر سے منسلک خدشات کے باوجود صدر پوٹن نے حلب سے بچے کچے لوگوں کو نکالنے کے عمل کو ‘ دور جدید میں انسانی ہمدردی کی سب سے بڑی بین الاقوامی کارروائی ‘ قرار دیا۔
روس کے صدر نے کہا کہ ایران شام اور ترکی، قازقستان میں امن بات چیت پر راضی ہوگئے ہیں۔
جمعے کی پریس کانفرنس میں مسٹر پوٹن نے مغرب سے تعلقات کے متعلق نرم رویہ اختیار کیا اور یہ توقع ظاہر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ کی انتظامیہ روس دوست ہو گی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے صدر براک اوباما کی انتظامیہ اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ہلری کلنٹن کی شکست کی ایک وجہ روس کی امریکہ میں ہیکنگ کو قرار دنے پر نکتہ چینی کی۔
سی آئی اے اور ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور پارٹی کے عہدے داروں کی ہیکنگ نے مسٹرٹرمپ کو جیتنے میں مدد دی۔