راولپنڈی (جیوڈیسک) ممتاز قادری قتل کیس میں عدالت کا کہنا ہے کہ عدالت جذبات یا احساسیت کی بنیاد پر فیصلہ کرے یا قانون کے مطابق ، تمام دلائل درست مان بھی لئے جائیں تو پولیس اہلکار کے حلف کا کیا کریں۔؟
ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز پر مشتمل بینچ نے کی۔ ممتاز قادری کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہادتیں اور ثبوت ممتاز قادری کو مجرم ثابت نہیں کرتے۔
ممتاز قادری کا ڈیوٹی ریکارڈ بہت اچھا ہے، جسٹس نورالحق قریشی نے استفسار کیا کہ کیا ممتاز قادری نے کسی اور وی آئی پی کے ساتھ ڈیوٹی کی؟ ممتاز قادری کے وکیل نے کہا کہ ممتاز قادری نے ایلیٹ کمانڈو کی حیثیت سے بہت سے وی آئی پیز کے ساتھ ڈیوٹی کی۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ تمام دلائل درست مان بھی لئے جائیں تو پولیس اہلکار کے حلف کا کیا کریں۔ وکیل ممتاز قادری نے کہا کہ آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے، قانون کے ساتھ جذبات بھی ضروری ہیں، عدالت کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر جج بھی قتل کریگا تو قانون کی گرفت میں آ جائیگا۔
میڈیا کے مطابق ضیاالحق کے بیان کی وجہ سے سلمان تاثیر نے کالا قانون کہا، سیشن جج کسی ملزم کو سزائے موت دے سکتا ہے لیکن ہاتھ نہیں لگا سکتا، اگر ریاست قانون پر عمل نہیں کرتی تو بھی طریقہ کار موجود ہے۔ استغاثہ کو اپنے دلائل کیلئے مساوی وقت دیا جائے گا تاہم عدالت نے کیس کی سماعت 10 فروری تک ملتوی کر دی۔