قائد اعظم محمد علی جناح رحتمہ اللہ علیہ ایک عظیم رہبر سیاستدان او ر نڈر باہمت لیڈر تھے ،جن کی قیادت میں مسلمانوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ہر پہلو ایک روشن مثال ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی ،کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے، جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے،مسولینی ،جناح آف پا کستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں ،بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں، اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں، اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے ،جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں ،جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے ۔یہاں پر بڑی غور طلب بات ہے کہ25دسمبر، یوم قائد اعظم تجدید عہد کا دن ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے قوت ایمانی اور سیاسی حکمت عملی سے لیس ہو کر انتھک محنت اور جدوجہد کر کے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا،بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے ان کے والد پونجا جناح راجکوٹ کے رہنے والے تھے ،اور کراچی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
محمد علی جناح ابھی بچے ہی تھے ،کہ والد نے ان کو بمبئی کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کرادیا ،یعنی بچپن ہی میں انہیں ماں باپ سے الگ رہ کر نڈر اور باہمت بننے کا موقع مل گیا اس کے بعد انہیں کراچی کے اسکول میں داخل کردیا گیا، سولہ سال کی عمر میں میٹرک کیا اور انگلستان بیرسٹری کی تعلیم کے لیے بھیج دیے گئے ،بیس سال کی عمر میں بیرسٹر بن کر واپس آئے سیاسیات میں محمد علی جناح سب سے پہلے ہندوستان کی مجلس قانون ساز کے رکن بنے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے، اگرچہ جناح مسلم لیگ کے علاوہ کانگریس کے بھی حامی تھے ،لیکن کچھ مدت بعد ان کو محسوس ہوا کہ ہندوان کی قوم سے انصاف کرنے پر آمادہ نہیں ہیں،چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے تمام مسلمانوں کو جمع کیا، اور 1940 میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان قائم کرنے کی قرارداد منظور ہوئی ،ہندوسان کے مسلمان جوق در جوق قائد اعظم محمد علی جناح کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے لگے1887کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کہ آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔
لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی، اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا ،اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا،انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی ،اور جلد ہی بہت نام کمایاآل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی ،قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیارکی،اور ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے ، محمد علی جناح ا س بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا ،اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی، جناح کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے بانی تھے،23 مارچ 1940کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی، انیس سو انتیس میں انہوں نے موتی لال نہرو کو نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے ،جن میں برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا ،حل تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانان ہندوستان کی نمائندگی کی تاہم کچھ عرصے کے لئے سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر انگلستان ہی میں مقیم ہوگئے ،لیکن جب ہندوستان کے مسلمانوں نے انہیں اپنی قیادت کے لیے آواز دی تو وہ اس پر لبیک کہتے ہوئے، وطن واپس لوٹ آئے ،انیس سو سینتیس میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے، 1940ء میں ان کی زیر صدارت لاہور میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی ،جس میں واشگاف الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔
یہاں بڑ ی غور طلب بات یہ ہے کہ مصور پاکستان علامہ اقبال رحتمہ اللہ علیہ کے مرد مومن کی تمام خصوصیات موجود تھیں،ان کا کردار بے داغ اور شخصیت بے عیب تھی،وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایسے عظیم قائدتھے، جنھوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھا ،اور آپ نے اپنی قوم کو بھی یہی پیغام دیا، کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،قرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے، قرآن اور اسوہ حسنہ کا اتباع ہماری نجات کی ضمانت ہے، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح طویل جدوجہد کے نتیجے میں یہ مطالبہ انگیزوں نے بھی تسلیم کیا ،آخر چند سال بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان قائم ہوگیا ،اور قائد اعظم اس کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اوربالآخر 1947ء میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم ریاست پاکستان کا اضافہ ہوگیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہقیام پاکستان کے بعد قائداعظم، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے وہ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے ،لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔
آپ ڈاکٹروں کے مشورہ پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں ،مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیتوں کا سلسلہ جاری رہا ،آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے، اور پھر کام میں لگ گئے نتیجہ یہ نکلا کہ صحت مزید گرگئی ،ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے ،1948بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا ،اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی سے گزاری ،مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی، مگر آپ نے پاکستانی عوام کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی ،یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر ِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا، کہ قائداعظم محمد علی جناح بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے ،جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے، کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی،بابائے قوم قائداعظم محمد علی جنا ح نے فرمایا۔میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں،کام کام اور بس کامسکون کی خاطر ، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں،پا کستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا قائد اعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی۔
یہاں پر بڑی غور طلب یہ ہے کہ سالہا سال کی مسلسل محنت سے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جنا ح کی صحت بہت خراب ہوچکی تھی، وہ بیماری کی حالت میں بھی اپنی بنائی ہوئی نئی مملکت کا کام نہایت محنت سے انجام دے رہے تھے ،جس کانتیجہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے صرف تیرہ مہینے بعد دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے اس معمار نے اپنی جان اپنے پیدا کرنے والے کو سونپ دی، تحریک پاکستان اور وجود پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ایک روح کا درجہ رکھتی ہے قائد اعظم آئے غلام مسلمانوں کو آزاد کرایا، پاکستان بنایا مسلمانوں کے حوالہ کیا اور چلے گئے، غور طلب بات یہ ہے کہ اب یہ ہم پر منحصر ہے، کہ ہم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کر یں، اورجب تک یہ ملک قائم ہے، کروڑوں انسان اپنے اس محسن کی یاد کو سینے سے لگائے رہیں گے، بائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا،ہم سب پاکستانی ہیں، اور ہم میں سے کو ئی بھی سندھی بلوچی بنگالی پٹھان یا پنجابی نہیں ہے ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔ دیکھا جائے تو آج پاکستان مختلف مسائل کا شکار ہے، جس کا واحد حل یکجہتی کا فروغ ہے۔غور طلب بات ہے کہ ہیکٹر بولا اپنی کتاب جناح دا فائونڈر اف پاکستان میں لکھتے ہیں، جناح کی شخصیت پر مونیٹگو نے سب سے گہری نظر ڈالی وہ کہتا ہے، کہ سب لیڈروں کے ساتھ جناح مجھ سے ملے، وہ ابھی جواں ہیںاور آداب محفل سے پوری طرح واقف ہیں، ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ان کا منصوبہ کلی تامنظور کیا جائے۔ میں جناح کی بحث سن کر بہت تھک گیا تھا، اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی۔
بحث میں الجھانے کی کوشش کی مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح نہایت قابل شخص ہیں،یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ وہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ہی تھی جن نے اپنی قوم کے کروڑوں فرزندوں کو انگریزوں کے بعد ہندوئوں کی غلامی سے بچا کر ایک نئے، اور آزاد وطن کا ایسا لازوال تحفہ دیا،جو اآج دنیا کی ایک مضبوط ایٹمی قوت بن چکا ہے، اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کیلئے عزم و ہمت کی عظیم الشان مثال بھی ہے ،یہاںپر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار اور خیالات کی روشنی میں ہمیں آگے بڑھنا ہے ،ملک میں اتفاق و اتحاد کی فضا کو بر قرار رکھتے ہوئے محنت کی عظمت کا بول بالا کرنا ہے، آج بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے اتحاد، یقین محکم اور نظم و ضبط کے اصولوں پرعمل پیرا رہنے کا عزم کریں،قائد اعظم محمد علی جناح رحتمہ اللہ علیہ، علامہ اقبال رحتمہ اللہ علیہ کے خواب اور مسلمانوں کی خواہش پاکستان کو عملی طور پر قائم کرنے کے محض ایک سال بعد ہی 11 ستمبر 1948 کو خالق حقیقی سے جاملے،ہمیں پاکستانی کی تعمیر و ترقی میں مل کر اہم کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ ہمارے عظیم قائد اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں را ئیگاں نہ جائیں ،اللہ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کو رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے۔آمین