کراچی (جیوڈیسک) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے کہا ہے کہ وہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ 2010 میں طے کردہ فیصلے کے تحت 2015 تک صوبہ سندھ کی جامعات کی مناسب مالی گرانٹ جاری رکھیں، بصورت دیگر معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لیجایا جائیگا۔ انہوں نے یہ بات وزیراعلیٰ ہاؤس میں پبلک سیکٹر کی تمام جامعات کے وائس چانسلر ز کے ساتھ منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں وائس چانسلرز نے ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹس کے عدم اجراء سے متعلق رپورٹس پیش کیں۔ رپورٹس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد ہائیر ایجوکیشن کا معاملہ صوبائی حکومت کو منتقل ہوگیا ہے تاہم این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ 2015 تک جامعات کو مالی امداد ایچ ای سی دے گی، کیونکہ اس وقت تک 18 ویں ترمیم پاس نہیں ہوئی تھی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے جامعات کے بورڈ کے سیکریٹری سید ممتاز علی شاہ کو ہدایت کی کہ وہ ایچ ای سی سے 2015 تک مناسب مالی امداد کے حصول کے حوالے سے این ایف سی ایوارڈ کے مطابق سمری تیار کریں اور اسے سی سی آئی سیکریٹریٹ میں آئندہ اجلاس سے پہلے جمع کرائیں جواسی ماہ منعقد ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایچ ای سی کی ذمہ داری ہونے کے باوجود سندھ حکومت نے آنے والے بجٹ 2014-15 میں پبلک سیکٹر کی تمام جامعات کو مالی امداد کی فراہمی فیصلہ کیا ہے اور امید ہے فنڈز کا اجراء جولائی 2014 سے شروع ہوجائیگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پی پی حکومت معیاری تعلیم کی خواہاں ہے اور چاہتی ہے کہ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور سرکاری یونیورسٹیوں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے سینئر ترین وائس چانسلرز پر مبنی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ صوبہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کی معیار کو بہتر بنانے کیلئے آئی بی اے سکھر کی مثال دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے وائس چانسلرز سے کہا کہ وہ بھی اعلیٰ معیاری تعلیم کا ہدف مضبوط ارادے، دیانتداری اور لگن کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے فنڈز کا کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے۔
عالمی بینک کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ہائیر ایجوکیشن کے فروغ کیلئے حکومت سندھ سے مالی تعاون کیلئے تیار ہیں۔ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سید ممتاز علی شاہ نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں نئی جامعات سمیت کل 18 جامعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام جامعات کے اخراجات کا تخمینہ 20 ہزار ملین روپے ہے، جس میں سے 6010 ملین روپے جامعات اپنے وسائل سے حاصل کرلیتی ہیں، جبکہ 6311 ملین روپے ایچ ای سی کی مالی گرانٹ ہے، لہٰذا 15 یونیورسٹیز کا شارٹ فال 5 ہزار ملین روپے سے زائد ہے۔
شارٹ فال سے نمٹنے کیلئے ان جامعات کو اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں وائس چانسلرز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو یونیورسٹیز کے اختیارات منتقل ہونے کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے اور معمولی فنڈز کی فراہمی کے علاوہ مالی گرانٹ نہیں دی جا رہی ہے جس کے باعث جامعات کو فنڈز کی کمی کا سامنہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ بینکوں سے قرضہ حاصل کرتے ہیں تو انہیں 18 فیصد تک سود دینا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے اور شارٹ فال پورا کرنے کیلئے انہوں نے سیلف فنانس اسکیم متعارف کرائی ہیں اور بینکوں سے 9 فیصد سود وصول کیا جا رہا ہے۔
وائس چانسلرز کا کہنا تھا کہ وہ پرانی عمارات کو بحال کرنے،اپنا ٹرانسپورٹ نظام چلانے،تحقیقی سرگرمیوں اور پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ کو سہولتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،تاہم تمام وائس چانسلرز نے جامعات کے اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل ہونے پر اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اب اعلیٰ تعلیم بہتر ہوگی اور جامعات ترقی کر یں گی۔ اجلاس میں صوبائی مشیر خزانہ سید مرادعلی شاہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات محمد وسیم اور حکومت سندھ کے دیگر افسران نے بھی شرکت کی۔