قمر رضا شہزاد کا شمار اردو زبان و ادب کے ان نمائندہ ، منتخب اور ممتاز شعراء میں ہوتا ہے کہ جنھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت کم عرصے اور انتہائی قلیل مدت میں دنیاے علم و ادب میں نہ صرف اپنی پہچان بنائی بلکہ ایک سنجیدہ فکر منجھے ہوئے شاعر کے طور پر اپنی مسلمہ حیثیت کو بھی تسلیم کرایا۔
ایک تسبیح کی طرح تھا عشق آپ نے جس کو دانہ دانہ کیا
قمر رضا شہزاد کی شاعری روح اور دل کی شاعری ہے ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک وجد آفریں کیفیت طاری رہتی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت کے تمام مناظر خوب صورت الفاظ میں ڈھلتے ، سمٹتے ہوئے ایسی پر کیف لطافت کے ساتھ روح اور دل میں اترتے چلے جا رہے ہیں کہ جس سے دل باغ باغ اور روح سرشار ہورہی ہے۔
اے دوست سیر کون و مکاں بعد کی بات ہے پہلے یہ دشتِ ذات تو مجھ سے عبور ہو یہ خاک جس سے پھوٹ رہا ہے کوئی شجر شاید یہیں کہیں سے میرا بھی ظہور ہو لے جا رہا ہوں ساتھ میں اپنی گزارشات ممکن ہے راستے میں کہیں کوہِ طور ہو
سید قمر رضا شہزاد کبیر والا سے تعلق رکھنے والے سادات گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ یکم اکتوبر 1958ء کو کبیر والا ضلع خانیوال میں سید غلام مرتضیٰ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول کبیر والا سے حاصل کرنے کے بعد وہ وطن عزیز کے معروف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہے ، جن میں گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج خانیوال ،گورنمنٹ کالج سول لائنز ، یونیورسٹی لاء کالج ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ایل ایل بی کیا اور اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ قمر رضا شہزاد نے با قاعدہ شاعری کا آغاز 1980ء میں کیا ۔ شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ “پیاس بھرا مشکیزہ” 1994ء میں شائع ہوا ۔ اب تک ان کے سات شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ، جن میں “پیاس بھرا مشکیزہ ”ہارا ہوا عشق”یاد دہانی ”خامشی”بارگاہ”شش جہات”اور نظموں کا ایک مجموعہ ”اتمامِ حجت ”شامل ہیں ، جب کہ حال ہی میں غزلیات کے چھ مجموعوں پر مشتمل کلیات ”خاک زار”بھی شائع ہوئی ہے۔ سخن کی دنیا میں انہیں ملک کے معروف شعراء و اکابرینِ ادب احمد ندیم قاسمی ، شہزاد احمد ، خالد احمد، احمد فراز، منیر نیازی، جعفر شیرازی، گوہر ہوشیار پوری ، شوکت ہاشمی، عزم بہزاد و لیاقت علی عاصم وغیرہ کی ثوبت اور قربت میسر رہی ۔
قمر رضا شہزاد معاصر صورتِ حال پر بھی کڑی اور گہری نظر رکھتے ہیں ۔ ان کی فکر ایک ایسے سماج کے تصورات اور خیالات کے گرد گھومتی ہے جو ایک سچے اور حقیقی رہبر و رہنما کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ قمر رضا شہزاد ایک ایسے سخن ور ہیں جو اپنے تخلیقی سفر میں تنہا نہیں بلکہ وہ امید ، خواب اور جستجو کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ ان کا فکری اور شعری شعور بہت بلند ہے ۔
مجھے پتہ ہے میرے پیر و کار آئیں گے زمیں پہ اور بھی گریہ گزار آئیں گے بیان ہو گا تیرا حسن ہر زمانے میں ہمارے بعد بھی قصہ نگار آئیں گے انھیں ملے گی رسائی تیرے خزانے تک جو اپنے دل میں چھپا سانپ مار آئیں گے
قمر رضا شہزاد فطری شاعر ہیں اور شاعری ہی ان کے مزاج کا حقیقی جوہر ہے۔ ان کا شعری اسلوب بے ساختگی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے منفرد اور پر تاثیر لب و لہجے سے لبریز ہے جو بہت کم تخلیق کاروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ وہ روز مرہ کی گفتگو میں بر تے جانے والے سادہ الفاظ کو بھی نہایت خوب صورتی ، شائستگی اور نفاست کے ساتھ شعری پیرائے میں ڈھالنے کے فن پر دسترس رکھتے ہیں۔ اسی طرح انھیں رواں اشعار کہنے پر بھی بے نظیر ملکہ و مہارت حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں فکر کا عنصر پوری قوت کے ساتھ موجود ہے ۔ بلاشبہ قمر رضا شہزاد اس عہد کے نہ صرف مقبول اور نام ور شاعر ہیں بل کہ ان کا شمار نوجوان نسل کے نمائندہ اور پسندیدہ شعراء میں ہوتا ہے۔
نظر میں آتا ہوں پھر دل کے پار ہوتا ہوں میں ایک عمر کے بعد آشکار ہوتا ہوں زیادہ ہوتے نہیں میرے ماننے والے میں سچ کی طرح یہاں اختیار ہوتا ہوں مجھے بھی آئینے جیسا کمال حاصل ہے میں ٹوٹتا ہوں تو پھر بے شمار ہوتا ہوں میری دھمک سے زمان و مکاں لرزتے ہیں میں ایک رقص ہوں دیوانہ وار ہوتا ہوں
ان کے اشعار خود آگہی اور شعورِ ذات تک رسائی کے لیے پڑھنے والوں پر فکر کے نئے دروا کرتے اور سوچ کے نئے زاویے مرتب کرتے ہیں۔ وہ اپنی فنی صلاحیتوں کے ذریعے انسان کے اندر ایسے مثبت رویے کا فروغ چاہتے ہیں جو مستقبل میں اس کے لیے راحت کا سامان پیدا کر سکے۔ وہ اپنے قلم کے ذریعے نفرت کی آگ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ قمر رضا شہزاد اپنے کلام میں نہایت عمدگی کے ساتھ پر مغز اور منفرد مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔ یقینا یہ خوبی ان کے بلند پایہ شاعر اور ایک قد آور تخلیق کار ہونے پر گویا مہر تصدیق ثبت کرتی ہے ۔
قیدی نے رہائی کی یہ تدبیر بنائی زنجیر سے اک دوسری زنجیر بنائی ممکن ہے کسی ذہن میں رہ جائیں مِرے نقش جاتے ہوئے دیوار پہ یہ تصویر بنائی دو چار ہیں اشعار اگر وہ بھی رہیں یاد میں نے تو یہاں صرف یہ جاگیر بنائی
قمر رضا شہزاد کا قلم عشقِ رسولۖ سے سرشار ہے ۔ ان کے خوب صورت نعتیہ اشعار حضور پرنور سرورِ کونین آقاے نامدار حضرت محمد مصطفی ۖ کی ذات مقدسہ سے ان کی گہری محبت و عقیدت اور عشق کا بے نظیر اظہاریہ ہیں ۔
مِرا قیام نہ رستہ مِرا سجود بنا مِری نجات کا باعث تو یہ درود بنا میں لمحہ ، لمحہ رہا آپ کے تصور میں یوں ہی نہیں یہ ستارہ مِرا وجود بنا مِرے لیے زرِ عشق مصطفیۖ ہے بہت تمام عمر کا حامل مجھے یہ سود بنا
قمر رضا شہزاد کا دلکش ،پرُکشش، دل آویزاورپر فکر تخلیقی سفر ایک خوب صورت تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ دعا ہے کہ وہ یوں ہی جہانِ سخن کو اپنی وسیع اور روشن فکر سے تر و تازہ اور تادیر آباد رکھیں۔
زمانہ اپنی ندامت کو ایسے کم کرے گا ہمارے بعد ہمارے بھی دکھ رقم کرے گا ابھی تو اس کے ہدف پر ہیں دوسرے افراد پھر اس کے بعد وہ اپنوں کے سر قلم کرے گا کوئی تو مجھ سا نظر آئے گا سرِ ہستی یہ آئینہ مِری تنہائی کو کم کرے گا قصہ گو اب تیری چوپال سے میں جاتا ہوں رات بھی بھیگ چکی نیند بھی آئی ہوئی ہے