حیدرآباد : اردو دلوں کو جوڑنے والی عوامی زبان ہے۔ہندوستان میں اس زبان کا قومی کردار رہا ہے۔اور 1857ء کے بعد جب ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا لوگوں میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھانے اور ملک کی آزادی کے بعد وطن سے محبت اور جمہوری اقدار کے فروغ میں اردو زبان نے اہم کردار ادا کیا۔ اردو نے انقلاب زندہ باد جیسا نعرہ دیا اور ہمارے شعراء نے حب وطن اور قومیت اور وطنیت کے جذبات سے بھرپور شاعری سے اردو شاعری کا دامن وسیع کیا۔اردو کسی مذہب یا فرقے کی زبان نہیں بلکہ یہ عالمی زبان ہے اور اب اپنے شعر وادب کے ذریعے قومی یکجہتی کوپروان چڑھانے اور عومی جذبات کی عکاسی کا کام کر رہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار قمر الدین صابری اردو فائونڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ ”جشن جمہوریہ”ادبی اجلاس و مشاعرے کے دوران مختلف شرکاء نے اپنے خطاب کے دوران کیا۔تقریب کی صدارت پروفیسر ایم ایم انور سینیر سائنٹسٹ اور سرپرست بزم نے کی۔ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد نے اردو شاعری اور حب وطن کے عنوان پر خطاب کے دوران مختلف شعراء کے کلام کا انتخاب پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ہمارے شعرا نے ہندوستانی قوم میں جذبہ آزادی اور حریت کو پروان چڑھایا۔وطن سے محبت ہر انسان میں ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا وطن پروان چڑھے۔ انہوں نے اقبال۔چکبست۔ساحر لدھیانوی ۔کیفی اعظمی۔اختر شیرانی۔فراق۔فیض ۔مخدوم۔راہی معصوم رضا ۔شکیل بدایونی۔مجروح سلطانپوری۔ندا فاضلی اور دیگر شعراء کے کلام سے حب وطن پر مبنی اشعار پیش کئے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے ۔چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو۔ اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستانی دستور ایک اہم رہنمایانہ دستاویز ہے جو ہمیں عزت اور شان و شوکت سے ملک میں رہنے کی رہبری کرتا ہے۔دستور کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے ہمارے شعرا اور ادیبوں کو بھی ادب تخلیق کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو این ٹی آر گونمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جذبہ آزادی کو پروان چڑھانے اور قومی یکجہتی کا پیغام عام کرنے کے لیے اردو نے رابطے کا کام کیا کیوں کہ اردو ایک بڑے طبقے کی مادری زبان رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو ہندوستانی اور عالمی زبان ہے اسے کسی مذہب یا ذات پات سے نہ جوڑا جائے۔انہوں نے اقبال کی نظم نیا شوالہ کے حوالے سے اردو میں حب وطن کی شاعری کی اہمیت اجاگر کی اور کہا کہ آزادی کے بعد اب ہمارے شعرا اور ادیبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے شہریوں کے جمہوری حقوق اور اقدار کی پاسداری کے لیے ایک مرتبہ پھر حب وطن اور وطنیت و قومیت سے بھر پور شعر و ادب پیش کریں۔مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر امرناتھ راہگیر نے اردو شاعری اور حب الوطنی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اور کہا کہ اردو زبان گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہے اس زبان کو قلی قطب شاہ میر اور غالب کے علاوہ دیا شنکر نسیم۔چکبست۔جگناتھ آزاد جیسے شعرا نے بھی اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔انقلاب زندہ باد کا نعرہ اردو نے ہی دیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے گنگا جمنی کردار کو برقرار رکھا جائے اور اس زبان کو مذہبی خانوں میں نہ بانٹا جائے۔پروفیسر ایم ایم انور سرپرست قمر الدین صابری اردو فائونڈیشن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان کے آئین میں سارے مذاہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ لوگ مذہب اور ملک کی قدر کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اردو کو مسلمانوں سے جوڑا گیا جب کہ سب مسلمان اردو نہیں بولتے اور سب اردو بولنے والے مسلمان نہیں ہیں۔حب وطن پر مبنی اردو شاعری ہر زمانے میں ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی ہے۔اردو کے ہمہ جہت کردار کر برقرار رکھا جائے اور اسے ملک اور قوم کی تعمیر کا موقع دیا جائے۔ادبی اجلاس کے بعد مدعو شعرا نے جشن جمہوریہ کے ضمن میں کلام پیش کیا۔
ڈاکٹر نعیم سلیم نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بل پہ ترقی کے طئے کئے زینے۔بہت سے لوگ ہمیشہ سفارشوں میں رہے۔ مکان اپنا ہے بوسیدہ ٹوٹو پھوٹا سا۔ اسی مکان میں ہم تیز بارشوں میں رہے۔جناب کامل حیدرآبادی نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے شہر جگمگاتے ہیں۔راستے نور میں نہاتے ہیں۔ چاند سورج بھی تک رہے ہیں ہمیں۔یوم جمہور ہم مناتے ہیں۔ جناب مومن خان شوق نے بھی اپنا کلام پیش کیا اور کہا کہ جھوٹ حرص و ہوس کی دنیا میں۔ لوگ ڈرنے لگے صداقت سے۔ظلمتوں میں پیار کی شمع جلانا چاہئے۔ وہ جو روٹھے ہیں انہیں پھر منانا چاہئے۔توڑنے کو دل کسی کا ایک پل درکار ہے۔ جوڑنے کے واسطے لوگو زمانہ چاہئے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے ادبی اجلاس اور مشاعرے کی کاروائی چلائی اور کہا کہ اس پروگرام کو فیس بک کے ذریعے دنیا بھر کے ناظرین نے مشاہدہ کیا۔