تحریر : عماد ظفر غیرت کے نام پر ایک اور قتل اور اس دفعہ اس قتل کا نشانہ بنی معروف سوشل میڈیا ماڈل قندیل بلوچ. قندیل بلوچ جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے کے غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی.اس کو شہرت اور گلیمر اچھا لگتا تھا.اکثر ایسے گھرانوں کی لڑکیوں کیلئے میڈیا یا شو بز میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی.اور ایسا ہی قندیل بلوچ کے ساتھ ہوا. چنانچہ قندیل بلوچ نے کئی بھارتی ماڈلز کی طرح سوشل میڈیا کا سہارا لیا.
اپنے جسم کی نمائش شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس “غیرت مند” معاشرے نے اس کے جسم کی وڈیوز سے محضوظ ہوتے ہوئے اسے ایک مشہور و معروف ماڈل بنا ڈالا. اس کی نیم برہنہ تصاویر وڈیوز اور عجیب و غریب حرکات سے یہ “تماش بین” معاشرہ بھرپور لطف اندوز ہوتا رہا. یہاں تک کہ ٹی وی چینلز بھی اس کو نیوز بلیٹن میں شامل کرنے لگے اور اسے انٹرویوز کیلئے پروگراموں میں مدعو کرنے لگے. قندیل نہ تو پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی کسی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لیئے میڈیا ریٹنگز کیلئے اس سے عجیب و غریب قسم کی حرکات کرواتا اور بیانات دلواتا اور قندیل شہرت اور گلیمر کیلئے یہ سب کیئے جاتی. مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی کا معاملہ کے بعد سے قندیل بلوچ شدت پسندوں کی تنقید کی زد میں تھی.
اس کو دھمکیاں بھی دی گئیں.وہی ” غیرت مند” افراد جو قندیل بلوچ کی تصاویر اور وڈیوز کو گھنٹوں سوشل میڈیا اور موبائل فونز میں دیکھتے رہتے ان سب نے قندیل بلوچ کو فحاشی و عریانی کا منبع قرار دیتے ہوئے اسے معاشرے اور ملک کیلئے رسوائی کا باعث ٹھہرایا. اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور “غیرت مندی” کی گزشتہ مثالیں سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو قندیل بلوچ کے ایسے ہی انجام کی توقع تھی. قندیل بلوچ ایک ایسی زندگی گزارنا چاہتی تھی جو سنی لیون یا کم شرما جیسی خواتین گزارتی ہیں لیکن سنی لیون کی عریانی والی تصاویر دیکھنے اور ڈھونڈنے میں دنیا بھر میں اول یہ “غیرت مند” معاشرہ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.
Qandeel Baloch
قندیل کی بچگانہ حرکات اور اس کی شہرت کیلئے کوششیں ردعمل تھا اس احساس محرومی کا جو قندیل جیسی لڑکیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے. بجائے اس لڑکی کے مسائل کو سمجھنے اور اس کی مدد کرنے کے ، ایک منظم ہرزہ سرائی کی مہم اس کے خلاف شروع کر دی گئی. اور نتیجتا اس کے “غیرت مند” بھائی نے اسے ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا. لیکن رکیے کیا قندیل بلوچ کا قاتل صرف اس کا بھائی ہے یا پھر ہمارے معاشرے میں بسنے والے تمام “غیرت مند”.صبح شام قندیل کی وڈیوز اور تصاویر سے شہوانی تسکین حاصل کرنے والے “غیرت مند” بریگیڈ اس قتل میں برابر کی شریک ہے. اور یہ “غیرت بریگیڈ” ایک ایسی تصوراتی دنیا میں بستی ہے جہاں ان کی خواہشات کے مطابق زندگی گزارو تو ٹھیک وگرنہ قندیل بلوچ جیسا حشر. یہ وہی “غیرت بریگیڈ” ہے جو صرف اور صرف جذباتی اور کھوکھلے نعروں اور بیانات سے متاثر ہو کر اپنے ہی گھر کو جہنم بنائے رکھتی ہے.
غیرت مندی کی انتہا یہ ہے کہ سارا زور عریانی اور فحاشی پر اور وہ بھی صرف خواتین پر. سوال یہ ہے کہ اگر قندیل فحاشی و عریانی پھیلا رہی تھی تو اس کی وڈیوز اور تصاویر سے محظوظ ہونے والے تماش بین کیا بے غیرتی کے اعلی ترین درجے پر فائز نہیں ہیں. کیا قندیل بلوچ کو اکسانے والے “غیرت مند” ہیں؟ غیرت کے نام پر قتل خواتین کا ہی کیوں؟ کیا زنا عورت اکیلے کرتی ہے؟ کیا عریانی صرف عورت پھیلاتی ہے؟ بدقسمتی سے معاشرے کے نام نہاد پڑھے لکھے افراد بھی اپنا ذہنی تعصب ختم نہیں کر پاتے اور اپنی ناکامیوں اور فرسٹریشن کا ملبہ خواتین پر اتارتے نظر آتے ہیں. عجیب و غریب حرکات اور گری ہوئی سوچ رکھ کر اپنی ہی بچیوں کو قتل کر کے سینہ چوڑا کرتے ہیں اور ساتھ ہی آہیں بھر کر کشمیر اور فلسطین کی بچیوں کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں. اوریا مقبول جان جیسے افراد خواتین کے خلاف اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں جو ایسے شدت پسندانہ رویوں کو فروغ دینے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں.
یہ نام نہاد پڑھے لکھے لوگ مذہب اور تہزیب کے فرق سے نابلد اور نآشنا ہوتے ہیں اس لیئے بس طوطے کی طرح رٹی رٹائے جملے بولنے کے علاوہ اور شدت پسندی میں مزید اضافہ کرنے کے علاوہ یہ کوئی اور کام نہیں کر سکتے. ایک لمحے کیلئے مان لیتے ہیں کہ ہماری معاشرتی اقدار اتنی کمزور ہیں کہ قندیل بلوچ سے ان کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ غیرت اور مذہب کے چیمپیئز حضرات نے کیوں قندیل بلوچ کی زندگی میں ہی اسے سمجھانے بجھانے کی کوشش نہ کی. اور کیوں یہ افراد “غیرت کے نام پرقتل” جیسے گھاؤنے فعل کی مذمت نہیں کرتے. یہ تمام افراد خاموش رہ کر اس جرم کو خاموش تائید دیتے ہیں. ایک بے غیرت اور تماش بین معاشرہ کمزوروں کو قتال کرنے اور خواتین پر ظلم ڈھانے کے علاوہ آخر اور کر بھی کیا سکتا ہے.
گھروں میں بیٹھ کر نیو یارک سکوائر کو فتح کرنے کفار کو تباہ کرنے کے خواب دیکھنے والا معاشرہ حقیقت کی دنیا سے کہیں دور بستا ہے اور جب حقائق کی دنیا میں تلخ اور کڑوے سچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان ناتمام آرزوؤں کا سارا بوجھ کبھی خواتین اور کبھی اقلیتوں پر مظالم کے زریعے اتارا جاتا ہے. یہ بھی خوب ہے کہ اپنی ہی بچیوں کو مار کر یا انہیں زندہ درگور کر کے غیرت مندی کے نعرے مارے جائیں. خود دن بھر عورتوں کے پستان اور دیگر جسم کو کتوں کی طرح کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے کے بعد بے حیائی اور عریانی کے خلاف زور و شور سے بیانات داغے جائیں نعرے مارے جائیں یا سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کیئے جائیں. کسی گدھ کی مانند انہی خواتین کے جسموں کو شہوانی لذت حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑیں اور لذت حاصل کرنے کے بعد عورت مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور مرد افضل ہے جیسے بیانات کا سہارا لے کر خواتین کا استحصال کیا جائے.
Honor Killing
قندیل بلوچ ہمارے معاشرے کا وہ چہرہ تھی جسے ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ہمیں پارسائی کا سرٹیفیکیٹ چاھیے.ہمارے ہاں سب ٹھیک ہے جیسے سرٹیفیکیٹ چائیے. قندیل جیسی کئی لڑکیاں شو بز یا میڈیا میں آنا چاہتی ہیں لیکن ان شعبوں میں بیٹھے “غیرت مند” افراد ان کا جسمانی و ذہنی استحصال کرنے کے بعد انہیں استعمال کر کے اپنے جیسے “غیرت مند” بھائیوں کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ آرام سے اہنے اندر کے حیوانی جزبے کی تسکین کیلیے انہیں قتل کر دیں یا تیزاب سے ان کا چہرہ ہی مسخ کر دیں. یہ غیرت کس چڑیا کا نام ہے ہمارے معاشرے کی اکثریت اس سے نابلد دکھائی دیتی ہے. قندیل کی حرکات سے اگر معاشرتی اقدار خطرے میں تھیں تو ایسی کمزور اقدار کو مرنے دینا چاھیے.
ویسے بھی یہ مصنوعی اقدار صرف خواتین بچیوں اور اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کے علاوہ اور دیتی بھی کیا ہیں. 21 ویں صدی سے منہ موڑ کر جینے کے علاوہ ان اقدار نے اور دیا بھی کیا ہے. اگر چہرے پر داغ ہوں تو ان کا علاج کیا جاتا ہے نا کہ چہرے کو مسخ کر کے تن سے جدا کر دیا جاتا ہے.قندیل بلوچ کی بچگانہ حرکات سے مجھے بھی اختلاف تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کی جان لے لی جاتی.بے حیائی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے اور یہ کیفیت منطق دلائل اور حقیقتوں کو رد کر کے خود ساختہ اور منافقانہ اصولوں پر اڑے رہنے کا نام ہے.
خیر ہمیں اس سے کیا واسطہ بھلے ہی دنیا ہمیں بے غیرت اور بے حیا معاشرہ کہے ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم ڈھٹائی میں بھی اوک ترین نمبر پر ہیں. اس لیئے ہم اپنی بچیوں کو اپنی بے حیائی اور بے غیرتی چھپانے کیلئے قتل کرتے رہیں گے اور پھر اس جرم پر غیرت اور حیا کی لفاظی چادر اوڑھ کر پارسائی کی جھوٹی سند خود ایک دوسرے میں تقسیم کرتے رہیں گے. مبارک ہو آج بے غیرت اور بے حیا معاشرے نے ایک اور بچی کو قتل کر کے اپنا سینہ فخر سے چوڑا کر لیا ہے. قندیل کا قتل اجتماعی معاشرتی سوچ اور رویوں کی وجہ سے ہوا اور ایسے قتل ہوتے ہی رہیں گے جب تک کہ اس معاشرے کو قدرت سوچنے اور تحقیق کرنے کی نعمتوں سے نہیں نوازتی.