کراچی (جیوڈیسک) پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں مقامی مذہبی رہنما مفتی عبدالقوی کو نامزد کردیا ہے تاہم اُن کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بتایا کہ مفتی عبدالقوی کو مقتولہ کے والد محمد عظیم کی طرف سے اس ضمن میں پولیس کو دی جانے والی متفرق درخواست کی بنا پر شامل کیا گیا ہے۔
اہلکار کے مطابق مفتی عبدالقوی کو اس مقدمے میں نامزد کرنے سے متعلق مقامی عدالت سے حکم نامہ بھی حاصل کیا گیا تھا۔
اہلکار کے مطابق اس کے علاوہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور عبدالباسط سے ہونے والی تفتیش کی روشنی میں بھی مفتی عبدالقوی کا نام اس مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق عبدالقوی کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 کے تحت اس مقدمے میں نامزد کیا گیا جو اعانت مجرمانہ سے متعلق ہے۔
عبدالباسط نے ملزمان وسیم اور حق نواز کو قندیل بلوچ کو قتل کرنے کے بعد اُنھیں فرار کروانے میں معاونت فراہم کی تھی۔
واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے مفتی عبدالقوی کو تفتیش کے حوالے سے ایک سوالنامہ بھجوایا تھا جس کا اُنھوں نے جواب دیا تھا جس میں ملزم نے دعویٰ کیا کہ اُنھیں معلوم نہیں ہےکہ قندیل بلوچ کو کس نے قتل کیا اور اس میں کتنے افراد ملوث تھے۔
اس کے علاوہ مفتی عبدالقوی نے یہ بھی دعویٰ تھا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد مقتولہ کے خاندان کے کسی بھی شخص نے اُن سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
سوشل میڈیا سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے گلہ دبا کر ہلاک کر دیا تھا
پولیس کو دیے جانے والے بیان کے مطابق ملزم مفتی عبدالقوی پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے رکن کے علاوہ فقہ سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے مشیر بھی ہیں۔
قندیل بلوچ کے قتل سے پہلے مفتی عبدالقوی کی مقتولہ کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصاویر شائع ہوئیں تھیں جس کے بعد ان کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت معطل کردی گئی تھی۔
مفتی عبدالقوی حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علما ونگ کے اہم عہدے پر فائض تھے اور اس واقعہ کے بعد اس جماعت کی قیادت نے ملزم سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
مفتی عبدالقوی کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔
اس سے پہلے پولیس نے مقتولہ قندیل بلوچ کے بھائی اسلم شاہین کو بھی اس مقدمے میں اعانت مجرمانہ کے جرم میں نامزد کیا ہے۔ ملزم اسلم شاہین فوج میں تعینات ہیں اور وہ ابھی تک اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔