کراچی (جیوڈیسک) سوشل میڈیا پر متنازع بیانات اور ویڈیو کے حوالے سے شہرت پانے والی ماڈل گرل قندیل بلوچ قتل کے کئی ہفتے بعد بھی خبروں میں ’ان ‘ہیں۔ پاکستانی میڈیامیں قتل اور ملزمان کے حوالے سے تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی خبر شہ سرخیوں کا حصہ ہوتی ہے۔
کیس کا مرکزی ملزم قندیل بلوچ کا بھائی وسیم پولیس کی حراست میں ہے جبکہ وسیم کے قریبی رشتے دار حق نواز اور واردات میں استعمال ہونے والی ٹیکسی کا ڈرائیور عبدالباسط بھی گرفتار ہے جبکہ رویت ہلال کمیٹی کے ایک سابق رکن اور مذہبی رہنما مفتی عبدالقوی سے بھی پولیس تفتیش کررہی ہے۔
اتوار کو ملک کے تقریباً تمام نجی ٹی وی چینلز پر یہ خبر بھی گردش کرتی رہی کہ قندیل بلوچ قتل کیس کا تیسرا ملزم عبدالباسط ، مفتی عبدالقوی کا قریبی رشتے دار ہے تاہم مفتی عبدالقوی نے اتوار کو ملتان میں ایک پریس کانفرنس میں اس تعلق کی تردید کی۔
مفتی عبدالقوی نے بار بار زور دے کر یہ بات کہی کہ ان کی باسط سے رشتے داری تو دور کی بات ہے وہ اس کے خاندان کو بھی نہیں جانتے۔
کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے عبدالقوی نے وہ سوال نامہ بھی دکھایا جس کا تحریری جواب وہ پیر کی صبح پولیس حکام کے پاس جمع کرائیں گے۔
مفتی عبدالقوی کے جوابات تیرہ صفحات پر مشتمل ہیں جو انہوں نے صحافیوں کو بھی دکھائے۔ جوابات میں انہوں نے قندیل سے اپنی ملاقات، اپنی تعلیمی اسناد اور خاندان سے متعلق تفصیلات درج کی ہیں۔
اپنے تحریری بیان میں مفتی عبدالقوی نے لکھا ہے کہ ’قریشی ملا خاندان‘ ان کا سسرالی رشتے دار ہے لیکن جب عبدالقوی سے قریشی ملا خاندان کے ٹیکسی ڈرائیور باسط کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ باسط اور اس کے خاندان کو نہیں جانتے۔