قندیل بلوچ قتل، قاتل کون، خود قندیل، میڈیا۔۔۔یا؟

Qandeel Baloch

Qandeel Baloch

تحریر : وقار احمد اعوان
افسوس سے کہنا پڑجاتاہے کہ ہمارا معاشرہ ایک تباہی کی جانب روزبروزبڑھ رہاہے۔جس رفتارسے ہمارا معاشرہ اپنی پہچان کھو رہاہے،کوئی شک باقی نہیںرہ جاتا کہ ہم اپنی پہچان ایک دن کھو دیںگے۔جیسے گزشتہ روز معروف ماڈل قندیل بلوچ کا اپنے سگے بھائی کے ہاتھوں قتل یقینا ہمارے معاشرہ کے ماتھے پرایک بدنما داغ چھوڑگیاہے۔قندیل بلوچ جس کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے بتایا جاتاہے نے بہت کم عرصہ میں سوشل میڈیاپر شہرت حاصل کرلی۔سستی شہرت حاصل کرنا آج کے اس جدید دورمیں بہت آسان ہے ،کیونکہ اب تو ہمارا نام نہاد الیکٹرانک میڈیا ایسی ہی کہانیوں کے پیچھے پاگل ہوا پھرتاہے جس میں معاشرے کے بگاڑکے مکمل اسبا ب موجود ہوں۔اس کے علاوہ فیس بک ،ٹویٹر اوردیگر نے تو اوربھی آسان کر دیا۔بس آپ اپنی کوئی بھی تصویر ،ویڈیو وغیرہ اپ لوڈ کردیں اورپھر تماشہ دیکھیں آپ ایک نایاب تصویر جو روز مرہ سے ذراہٹ کے ہو اوراسی آپ کی اپ لوڈ کردہ ویڈو بھی۔۔

پھرچند ہی روز میںایسی تمام تصاویر اورویڈیوز ہمار انام نہاد الیکٹرانک میڈیا اٹھالے گا ۔اورآپ شہرت کی بلندیوں کو مفت میںچھو لیںگے۔البتہ جوکھم آپ کو صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ آپ چند روپے خرچ کریں گے فیس بک اوردیگر سائٹس کے لئے۔۔یہاں ہم فیس بک اوردیگر سائٹس کو ہرگز دوش نہیں دیںگے کیونکہ ان سائٹس کے مالکان نے جس خاص مقصد کے لئے انہیںلانچ کیا تھا وہ ہمارے اس پاک وطن میں ہرگز پورانہیں ہورہا۔ان سائٹس کا مقصد تو غیر ہی بہتر طورجانتے ہیں۔۔ہم تو صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی غرض سے مذکورہ سائٹس استعمال کررہے ہیں۔۔خیر موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔۔قندیل بلوچ شاید شارٹ کٹ کا راستہ اپنا کر شہرت کی بلندیوںکو چھو لینا چاہتی تھی ،اوراسی وجہ سے بے چاری نے پہلے پاکستان تحریک انصا ف کے چیئرمین اورمعروف سابق کرکٹر عمران خان کے ساتھ نام جوڑنے کی بھرپورکوشش کی۔۔

لیکن جب موصوفہ اپنے اس حربے میںمکمل طورپر ناکام دکھائی دیں تو پھر بے چارے مفتی قوی کو آڑے ہاتھوں لیا۔مفتی قو ی کے ساتھ جوکچھ کیا ۔۔وہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔اورہم سب سے بہتر اب اللہ تعالیٰ ،قندیل بلوچ جو اب اس دنیاسے اپنا ناطہ توڑچلی ہے اورمفتی قوی ۔۔ اورآخر میںبات رہ جاتی ہے قندیل کے قتل کی۔جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔کیونکہ ان سب حالات کی مکمل ذمہ داری قندیل پر بنتی ہے ،ان کے گھروالوں اورخاص طورسے قندیل بلوچ کو قتل کرنے والے بھائی کو چاہیے تھا کہ وہ خود الیکٹرانک میڈیا پر آکرقندیل کو دوٹوک الفاظ میںسمجھا دیتا ۔اگر تو قندیل اپنے گھروالوںکی بدنامی کامزید باعث بننے سے رک جاتی تو ٹھیک ورنہ اس سے مکمل رشتہ ختم کرلیا جاتا۔مگر بھائی نے طیش میںآکر بے چاری قندیل کو اس دنیا سے ہی رخصت کردیا۔یہاں آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ میں قندیل کے لئے بے چاری کا لفظ کیوں استعمال کررہاہوں۔

Islam

Islam

جناب وہ اس لئے کیونکہ ہمارامذہب اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیںدیتا کہ آپ کسی بھی انسان کو قتل کرواورجیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میںبھی فرماتے ہیں کہ ”کسی ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے”۔یہاں ان لوگوں کو میری مذکورہ بات سے ہوسکتاہے اتفاق نہ ہو جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز قراردیتے ہیں۔لیکن جناب اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اگر قندیل بری تھی یا برائی پھیلانے کا سبب بن رہی تھی یا پھر معاشرہ کو برائی کی جانب بڑھانے میںکوئی کسرباقی نہیںچھوڑ نہیں رہی تھی تو اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ سزااورجزااللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںہے۔ہم اگر کچھ کر بھی سکتے ہیں تو صرف سمجھا سکتے ہیں۔جیسے دوجہانوں کے سردارحضرت محمدۖ کے چچا حضرت ابوطالب جب بستر مرگ پر تھے تو حضورپرنورۖان کے پاس گئے اورانہیں کلمہ طیبہ پڑھنے کی تلقین کی۔جب مایوس ہوکر گھر سے نکلے تواسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی اورفرمایا ”کہ اے میرے نبی ۖ آپۖ کا کام دعوت دینا ہے ہدایت دینا آپ ۖ کے رب کے اختیارمیںہے”۔

اب اسی آیت کو اپنے سامنے رکھیں تویقینا بات سمجھ میںآجاتی ہے کہ قندیل کا قتل مذمت کے قابل ہے اوراسے ناحق قتل کیا گیا۔کیونکہ قندیل اپنے کئے کا خود اللہ کو جواب دے گی ۔اورجیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کہ گھروالوں چاہیے تھا اورخاص طورسے اس کے قاتل بھائی کو کہ قندیل کو میڈیا پر آکر براہ راست سمجھاتا یا پھر قطعہ تعلق کا اظہارکرتا ۔لیکن ایسا نہیںکیاگیا اوربے چاری قندیل کو موت کے گھاٹ اتا ردیاگیا۔قندیل اورایسی ہی کئی لڑکیاں روز اگر نہ ہوں تو ہفتے میں ضرور غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔کئی سوالات ہم سے پوچھتے ہیںکہ ہم نے اس معاشرہ کو آج تک کیا دیا اورہم کیا دینا چاہتے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ ان تمام پہلوئوں کو شامل کرنا ضروری ہے جو ان تمام حالات کے ذمہ دارہیں۔جیسے ہمارا نام نہاد الیکٹرانک میڈیا جس نے قندیل بلوچ کو اس کی بے باک حرکتوںکو مکمل سپورٹ کیا ،حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا اورہمارے نام نہاد صحافی جو حقیقت سے کوسوں دورہیں قندیل کو اس معاشرہ کی بھلائی اورسدھارکے لئے اُکساتے۔

اس کی حرکتوںکو تنقید کا نشانہ بناتے اوریہ سمجھاتے کہ ہمارے اسلامی معاشرہ کی عورتیں معاشرہ کے سنوارمیںمصروف نظرآتی ہیں ناکہ بگاڑکا سبب بنتی ہیں۔ہماری عورتیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر ملک وقوم کا سر فخر سے اونچا کررہی ہیں۔اپنی قابلیت اورذہانت کو ملک وقوم کی ترقی اورسربلندی کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ایسا قندیل بلوچ کو بھی کرنا چاہیے تھا ،اسے بھی دکھی انسانیت کی خدمت کرکے شہرت حاصل کرنی چاہیے تھی،اسے بھی سعدیہ بننا چاہیے تھا جو کراچی کے عوام میں صرف تین روپے میںکھانا تقسیم کررہی ہیں۔ اسے بلقیس ایدھی بننا چاہیے تھا،جو کئی سالوںسے اپنے شوہر کے ساتھ خدمت انسانیت میںمصروف نظرآتی ہیں۔اسے ان جیسی خواتین کی زندگی گزارنی چاہیے تھی جو ملک وقوم کے فخر کا باعث بنتی ہیں۔اپنے ،اپنے اردگر دکے معاشرہ کے فخر کا باعث بنتی ہیں۔اپنے گھروالوں اوررشتہ داروںکے فخر کا باعث بنتی ہیں۔لیکن قندیل نے ایسا نہیں کیا یہ اس کی انتہائی قسم کی بے وقوفی تھی۔۔

Media

Media

یا پھر سادہ الفاظ میںہمارا میڈیا ایسی خدمات کوپسندنہیں کرتا۔ہمارا میڈیا ایسی خدمات کا پرچارنہیںکرتا۔کیونکہ اگر ہمارامیڈیا انسانیت کی خدمت کرنے والوںکو سامنے لانے والا ہوتا تو کراچی کی سعدیہ کو اب تک پاکستان کابچہ بچہ جان چکا ہوتا کہ کس طرح وہ انسانیت کی خدمت میںدن رات مصرو ف ہے۔وہ اپنے خرچ پر غریبوںمیںصرف تین روپے میںکھانا تقسیم کرتی ہے۔ آج تک اسے کیوں سامنے نہیں لایا گیا ،اس پر ہمارے نام نہاد صحافیوں نے ٹاک شوز کیوں نہیںکئے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں ایسا کرنے سے ہم صحافیوںکی پہچان خطرے میںپڑجائے گی۔لوگ ان لوگ کی جے جے کار کرنا شروع کردیںگے۔پھر ہمیں کون پوچھے گا۔ہمارانام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ایسے میں ہمارامیڈیا اورہمارے نام نہاد صحافی قندیل کو کیا نصیحت کرتے جب وہ خودمعاشرہ کے بگاڑکا سبب بن رہے ہیں۔

ہمارامیڈیا جہاں اپنے چینلزپر ایسے ایسے پروگرامز کی بھرمارکرتانظرآتاہے کہ جسے دیکھ کر اسلامی روایات شرم کے مارے پانی پانی ہوتی نظرآتی ہیں۔اگر ہمارامیڈیا سمجھا اورہمارے نام نہاد صحافی سمجھتے ہیںکہ ماڈلنگ کرنا اوراپنے جسم کو یوں بے باک کرکے دکھاناجائز ہے تواس کی شروعات اپنے گھروالوںسے کیوںنہیںکرتے۔اسی طرح وہ تجزیہ کار خواتین جو میڈیا پر آکر اپنے آپ کو تجزیہ کارکا نام دیتی ہیں کیوں اپنی بیٹیوںکو سامنے نہیں لاتیں۔کیوں ان سے ماڈلنگ نہیںکرواتیں۔یقینا ایسا کرنے کے بارے میںوہ سوچ بھی نہیںسکتیں۔

پھر قندیل بلوچ کو کیوںنہیں سمجھایا گیا۔وہ ناسمجھ تھی۔اوراسی طرح ہمارے معاشرے کی ہر وہ عورت ناسمجھ ہے جو انڈین یا کوئی بھی ڈرامہ پروگرام دیکھ کرآپے سے باہرہو جاتی ہے اورپھر کچھ ایسا کر بیٹھتی ہے جس کی توقع رکھنا کسی بھی باعزت شخص کے لئے انتہائی ناگوارہوتاہے۔مرد بے چارہ،بھائی بن کر ،باپ بن کر ،بیٹا بن کراورشوہر بن کر عورت کی ہرطرح سے حفاظت اور کی خواہشات کا مکمل خیا ل رکھنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن اگر عورت گھرکی چاردیواری میں رہ کر بھی مرد کومرد نہ سمجھے اور اپنی خواہشات کا دائرہ وسیع کرجائے تویقینا معاشرہ تنزلی کی جانب گامزن نظرآتاہے۔اوریہی ہماراالمیہ بھی ہے کہ آج کی عورت عارضی خوشی کو دائمی خوشی سمجھ لیتی ہے ،وہ سمجھتی ہے کہ دنیا میں جینے کے لئے ہر حد پار کرجائو۔کچھ بھی کرلو مگر خواہشات پوری ہونی چاہیے۔

Muslim Women

Muslim Women

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام عورت کوایک مقام دیتاہے۔اورجیسا ہم اوپر ذکرکرچکے کہ ہمارے ملک میںایسی بھی ہزاروں لاکھوںخواتین ہیں جو دن رات حلال اورباعزت روزگار کماکر اپنے گھروالوں ،اپنے معاشرہ اور ملک وقوم کی لاج رکھتی نظرآتی ہیں۔اورایسی بھی جن کے کارنامے سن کر دل خون کے آنسو روتاہے۔یہا ں والدین کی غفلت بھی سامنے آتی ہے کیونکہ والدین کی صحیح تربیت ہی بچوںکے روشن مستقبل کا ضامن ٹھہرتی ہے۔لیکن کیا کیاجائے اورآخر کن امورکی انجام دہی سے ہی ہم پرسکون ہوسکتے ہیں۔ایسے سوالات کا جنم لینا زندگی اجیرن بنادیتاہے۔لیکن مشکلات کے حل ڈھونڈنے سے ہی معاشرہ اور معاشرہ میںبسنے والے لوگوںکی زندگی پرسکون ہوسکتی ہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم یعنی والدین اپنے بچوںکی صحیح تربیت میںکوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔

اسی طرح میڈیا جوکہ معاشرہ کے بگاڑاورسنوارمیںاپنا مثبت کرداراداکرسکتاہے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے تمام پروگرامز اورڈراموںکامکمل بائیکاٹ کریں جن سے ہمارامعاشرہ بے سکونی کے راستے پر چل نکلتاہے۔اورجس کے دیکھنے سے ہماری خواتین باپ ،بھائی،شوہر اوربیٹے کی عزت کر نااوران کے رشتے کی توہین کرنا شروع کردیتی ہیں۔اورپھر آخر میں ان تمام بہنوں ،بیٹیوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اپنے آپ کو پہچانیں ۔اپنے مقام کو پہچانیں ۔اپنی ہستی کوپہچانیں۔اپنے وجود کو پہچانیں۔اپنے کردارکو پہچانیں۔کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ آپ ہی کی بدولت معاشرہ سنورسکتاہے۔

آپ ہی ایک خوشحال اورپرسکون معاشرہ بننے کی کارن بن سکتی ہیں۔آپ ہی ایک قوم بنا سکتی ہیں۔اگر آپ خود کو پہچانیں گی۔خود کو اپناجائز مقام دیںگی۔خود کو اپنے دائرے میںرکھیںگی۔خود معاشرہ کے بنانے کا سبب بنائیںگی۔لیکن اگر آپ ہی ایسا نہیںکریںگی تو ہمارا نام نہ ہوگا۔۔ہمارے معاشرہ میں ایسی ہی قندیل پیداہوتی رہیںگی۔ایسے ہی غیرت کے نام پر قتل مقاتلے ہوتے رہیںگے۔ایسے ہی بہنوںکی عزتیں تارتارہونگی۔ایسے ہی عورت عورت نہیںرہے گی۔اس لئے اے عورت خود کو پہچان۔۔

Waqar Ahmed Awan

Waqar Ahmed Awan

تحریر : وقار احمد اعوان