کروڑ لعل عیسن (نامہ نگار) معروف عالم دین قاری محمد اشفاق سعیدی گولڑوی نے ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں غلط طور پر گائیڈ کیا گیا۔ ہم نے کسی کے خلاف کوئی خبر شایع نہیں کروائی۔ ہم نے تو شرعی مسئلہ بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قاری ظہور نامی ایک شخص مسئلہ کی دریافت کیلئے آیا تھا کہ اگر کسی زندہ فوت ہونے والی بچی کو کفن ، غسل اور جنازے کے بغیر دفنا دیا جائے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے۔ قاری اشفاق سعیدی نے کہا کہ اگر کسی نے زندہ فوت ہونے والی بچی کو بغیر کفن ، غسل اور جنازے کے گڑھا کھود کر دفن کیا تو یہ شرعاً و اخلاقاً جرم ہے۔ خبر میں اضافہ صحافیوں نے اپنی جانب سے کیا ہے۔ زمینی حقائق کا ہمیں ہزگز علم نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کروڑ لعل عیسن (نامہ نگار) کروڑ ہسپتال میں پیدا ہونے والی مردہ بچی کے معاملے پر ڈی سی او لیہ کی ہدایت پر انکوائری کمیٹی گزشتہ روز کروڑ ہسپتال پہنچی۔ انکوائری کمیٹی میں ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر ضیاء الحسن ، سینئر ڈاکٹرز ظفر اقبال ملغانی ، ڈاکٹر گلزار صراتی ، ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق ، اے سی کروڑ نذر عباس وٹو شامل تھے۔ انکوائری کمیٹی نے کروڑ ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر منیر اسڑ ، ڈاکٹر قیصر فرید عباسی ، ہیڈ نرس حمیرہ ، نرس فریحہ اور عمارہ درجہ چہارم کے ملازم شہزاد میسح کے بیانات قلمبند کیئے۔ دوسری جانب ایم ایس کروڑ ڈاکٹر محبوب حسنین قریشی جو کہ واقعہ کے روز پولیو میٹنگ کے سلسلہ میں ڈی سی او آفس گئے ہوئے تھے نے اپنی جانب سے انکوائری کی جس میں ڈاکٹر منیر اسڑ ، نے کہا کہ بچی کا ڈیلیوری سے پہلے الٹرا سائونڈ کیا گیا تھا۔ بچی زندہ نہ تھی۔ ہیڈ نرس حمیرہ نرسوں فریحہ اور عمارہ نے بھی حلفاً کہا اور لکھ کر دیا کہ بچی ڈیلیوری کے وقت زندہ نہ تھی اس لیئے اسے کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں دفنا دیا گیا۔ ایم ایس کروڑ ڈاکٹر محبوب حسنین نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا پیشہ ہمیں انسانیت سے بھلائی کا درس دیتا ہے۔ ناکہ ظلم کرنے کا۔ اگر میرے اسٹاف کی کوئی غفلت ہوتی تو میں بلا تاخیر انکوائری رپورٹ میں لکھ کر انہیں فارغ کروا دیتا۔ اخبار نویس اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے بلا وجہ الزام تراشی نہ کریں۔