تحریر : انجینئر افتخار چودھری (یہ کالم ،میں نے قاری شکیل مرحوم کے لئے دو سال پہلے لکھا تھا۔اس انتیس رمضان کو دنیا سے گئے آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ان کی برسی پر اہل خانہ سے اظہار تعزیت ہے۔اس دوران ارشد خان بھی اس دنیا سے چلے گئے۔اللہ مغفرت فرمائے)تعلق دوستیاں سیاست سے بالاتر ہوتی ہیں۔ہم سے اچھے لوگ کسی اور جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اچھے ہمارے ساتھ ہو جائیں۔ کہتے ہیں جس رات وہ قومے میں گئے اس سے پہلے جن سے عمر بھر کے رشتے تھے ان کی جانب سے کافی دکھ ملا۔میں تفصیل میں جا کر اہل خانہ کے دکھوں کو زیادہ نہیں کرنا چاہتا ان کی موت کا سبب اسی عطار کا لونڈہ تھا جس کی سیوہ میں عمر بتائی ،نجوی اور مروہ کے ابو اس دنیا میں نہیں ہیں چھ سالوں میں قاری شکیل کو جدہ کیا سعودی عرب کا ہر پاکستانی نہیں بھلا سکا۔اگر وہ آج میری بات سنتے تو ان سے کہتا قاری صاحب!ایداں نئی کری دا۔
آج مروہ شکیل کی پوسٹ تھی کہ ابو کو ہم سے جدا ہوئے چھ سال بیت گئے ہیں۔جی ہاں چھ سال۔میں ان دنوں حفرالباطن سعودی عرب میں تھا۔رمضان المبارک میں قاری شکیل شدید علیل ہوئے اور انتہائی درجے کی ذیابیطس کا شکار پرانے مسلم لیگی قاری شکیل ہم سب کو چھوڑ گئے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس جہاں کو چھوڑ جانے والے کاش یادوں کو بھی ساتھ ہی لے جاتے۔مجھے اس بھولے بھالے شخص کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔مرنجان و مرنج قاری شکیل اور دوسرے ہمارے دوست ارشد خان تھے۔یہ سعودی عرب مسلم لیگ نون کے اولین لوگوں میں سے تھے۔دونوں ہی دلچسپ اور مزیدار۔ساری زندگی لڑتے رہے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کیا بلکل اسی طرح جس طرح آج کل تحریک انصاف میں سر پھٹول ہے۔ثابت ہوا زندہ پارٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔پارٹیوں اور گروہوں کی سب سے بڑی بدقسمتی اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی کارکن نہ رہے اور اس میںلیڈر ہی لیڈر ہوں۔میاں نواز شریف کے دونوں ہی قریب۔اچھا ایک بات میں نے مسلم لیگ میں نوٹ کی ہے لیڈر کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔انہیں تربیت کے ماحول سے گزارنا ہے،سٹڈی سرکلز کا اہتمام کر کے ان کی سمت درست کرنا ہے۔ہاں وہ اس میں مست ہیں کہ اپنی تو چل ہی رہی ہے انہیں مرنے دو۔اس کا عملی مظاہرہ میں نے جدہ میں رہ کر دیکھا ہے۔قاری شکیل اور ارشد خان مرتے دم تک الگ الگ گروپوں میں رہے۔آج دونوں وہ اپنے رب کے پاس ہیں۔اللہ ان کی تمام لغزشیں معاف کرے۔
حساب دوستاں چکانا ضروری ہے ورنہ آج کل تو ہم لوگ سگے بھائی کے بھی دشمن بن جاتے ہیں کہ اس کی سیاسی فکر آپ سے الگ ہوتی ہے۔قاری شکیل مسلم لیگ نون کے صدر تھے اس سے زیادہ وہ ایک مخلص پاکستانی اور پیار کرنے والے سنگی تھے۔ماموں کانجن سے تعلق تھا لیکن مدت دراز سے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ان کی نرینہ اولاد نہ تھی مگر بیٹیوں نے بھی کمال کا ساتھ دیا۔ارئیں برادری سے تعلق تھا آج ہوتے تو چودھری سرور انہیں پی ٹی آئی میں لے آتے(ہا ہا!)ایک دن نجوی نے فون پر بتایا ابو سے بات کریں اس وقت وہ قومے کی حالت میں تھے۔ قاری شکیل جب گلہ شکوہ کرتے تو کہتے چودھری صاحب ایداں نئی کری دا۔مشرقی پنجاب کا پنجابی لہجہ اور قاری شکیل مل کے کمال کر دیا کرتے تھے۔وہ قومے کی حالت میں تھے اور میں ١٦٠٠ کلو میٹر گاڑی چلا کر ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔مجھے ان کی بیٹی نے بتایا کہ جب آپ نے بات کی تو وہ مسکرائے اور ٹانگیں زور سے ہلانا شروع کر دیں۔پتہ ہے میں نے کیا کہا تھا،میں نے کہا قاری صاحب ارشد خان کیندا اے مسلم لیگ تا اصلی تے وڈا صدر میں آں۔لوگ چلے جاتے ہیں یادیں رہ جاتی ہیں۔ایک بار جدہ میں ٩٠ کے اوائل میں ایک تقریب جس کی نظامت میں کر رہا تھا اس میں ارشد خان سے میں نے سوال کیا کہ تحریک پاکستان کے وقت مسلم لیگ ہند کا صدر کون تھا؟جواب دیا اودھا تے مینوں پتہ نئیں ایتھوں دا میں آپ آں۔سادہ و دلفریب لوگ۔کسی نے سچ کہا ہے یہ جگنو زمین میں چھپ جانے والوں کی روشنیوں کے لشکارے ہیں۔میرے دوست جگنو تھے اور ہیں اللہ جانے والوں کو بخش دے اور رہنے والوں کو دوام دے۔قاری صاحب بڑے مزیدار بندے تھے۔ایک بار ہم دوستوں نے معروف شاعر احمد فرازکے اعزاز میں بڑی تقریب منعقد کی جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو قاری صاحب نے فراز سے کہا سرفراز صاحب تساں تے میلہ ای لٹ لیا اے۔ایک قہقہہ لگا میں نے لقمہ دیا اور کہا قاری صاحب نے کہا ہے سر!فراز آپ نے میلہ لوٹ لیا ہے۔فراز ہنسے اور کہا تسی وی ٹھک او تے او وی ٹھیک نے۔
جدہ عروس البلاد احمر کی خوبی یہ ہے کہ آپ دنیا بھر سے آئی ہوئی سیلیبریٹز سے مل لیتے ہو۔اگر آپ ملنسار ہیں دستر خوان ہے اور جیب ڈھیلی کرنا جانتے ہیں تو اس سے بڑا اسٹیشن ہے ہی نہیں۔آج جب میں اپنے نوجوان دوستوں میں وہ تڑپ دیکھتا ہوں تو مجھے وہ دن یاد آ جاتے ہیں۔
قاری شکیل معروف فیملی جمجوم کی مسجد میں کام کیا کرتے تھے۔مسلم لیگ سے تعلق تھا۔میں نے انہیں ہمیشہ نادار اور غریب پاکستانیوں کے لئے تڑپتا ہوا پایا۔قونصلیٹ پی آئی اے اور دیگر محکموں میں پاکستانیوں کے کام کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے۔اللہ نے انہیں شائد غصے کی عادت سے دور کر رکھا تھا ہر وقت مسکرانا اور زیر لب مسکرانا ان کا خاصہ تھا۔
ہم بھی اپنے زمانے کے طرار تھے۔جدہ میں پاکستانی اخبارات کے نمائیندے ایک حد تک کمیونٹی کے طرم خان بنے ہوئے تھے،ہمیں محسوس ہوا کہ لکھتے تو ہیں چلو کوئی اخبار پکڑ لیتے ہیں۔انہی دنوں خبریں کے خوشنود علی خان اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کرنے آئے ہوئے تھے۔ان سے میرا بھی ایک تعلق تھا اور وہ یہ تھا کہ میں نے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے فاغ ہونے کے بعد رانا موٹرز میں اپرینٹس شپ کی تو وہاں ان کے والد محترم صوبے دار صاحب بھی کام کرتے تھے۔مجھ سے خصوصی شفقت فرمایا کرتے۔تو یہ حوالہ جب خان صاحب کو بتایا تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ارشد خان نے مجھے کہا کہ آج قاری شکیل گروپ ان کے اعزاز میں ایک جلسہ کر رہا ہے آپ نے میرا کام کرنا ہے خوشنود علی خان سے میری ملاقات کرا دیں۔میں نے حامی بھر لی۔اور ہوا یوں کہ ہم تھوڑی ہی دیر میں خوشنود علی خان کو ان کے گھر لے گئے۔اگلی کہانی یہ ہوئی کہ دس بارہ گاڑیوں کا قافلہ لے کر ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے جہاں عشاء کی نماز کے بعد ارشد خان نے مکاوی دوستوں کے ذریعے ایک تقریب رکھ دی۔یوں جدہ کے مہران ہوٹل میں قاری شکیل گروپ پانچ چھ سو افراد کے ساتھ ان کا منتظر رہا۔
قاری صاحب چند دنوں بعد ملے اور ملتے ہی کہا چودھری صاحب ایداں نئی کری دا۔
انہوں نے جو زندگی میرے سامنے گزاری بڑی نفیس بڑی اعلی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا فن انہیں آتا تھا۔ان کی دوستیوں میں پاکستانی لیڈر شپ شامل تھی۔سرور پیلس میں انہی کی وساطت سے لوگ ملا کرتے تھے۔میاں نواز شریف جو پس پردہ سیاست کرتے تھے ان میں آج دو ناموں کا اعلان کئے دیتا ہوں،سعودی حکومت کی جانب سے ان پر سخت پابندی تھی کہ وہ سیاست نہ کریں۔قاری شکیل ان کی معاونت کیا کرتے۔تھوڑی بہت مدد میں کیا کرتا۔تمام خبریں قاری صاحب کے ہاں ہی سی لکھی جاتیں اور دو فاکس مشینیں استعمال ہوتیں جن میں ایک میری تھی اور دوسری ان کی۔انپیج لکھنے میں ان کی صاحبزادی ماہر تھیں اور میں بھی استعمال کر لیتا تھا۔بیانات بلمشافہ ملاقات پر طے ہوتے اور اگلے روز وہ اخبارات کی زینت بن جاتے۔پاکستان کی ایک مشہور ایجینسی آن لائن اسے پورے میڈیا میں پھیلا دیتی،قاری شکیل اور خادم نے نواز شریف کی سیاست کو اس دور میں زندہ رکھا جب مارشل لاء کے سائے تھے۔خدا گواہ ہے میری کوشش جمہویت کے لئے تھی کسی کی ذات کے لئے نہیں ۔ہم سمجھتے تھے کہ جنرل مشرف کی پالیسیاں اس قوم کے لئے زہریلی ثابت ہوں گی اور ہوا بھی وہی کچھ جو ہم نے سوچا تھا۔
ایک اور صاحب تھے مہران بینک سکینڈل کے معروف کردار جنرل اسد درانی وہ ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔انہیں اس بات کی کھوج تھی کہ میاں نواز شریف کیسے میڈیا تک رسائی کرتے ہیں۔سرور پیلس کی فاکس مشین پر بھی پہرے تھے۔پھر نائن الیون ہو گیا مشرف بلی سے شیر بن گیا اس نے ایک در پر سجدہ دیا اور باقیوں کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔اسی دوران پاکستانیوں پر آفت ٹوٹی اور وہ دھڑا دھڑ گرفتار ہونا شروع ہو گئے جن میں قاری شکیل بھی شامل تھے ارشد خان بھی اور عظمت نیازی بھی نعیم بٹ آفتاب میرزا اور کئی اور بعد میں مجھے بھی دھر لیا گیا۔اور یوں ٢٠٠٢ میں پاکستانیوں کے گھر اجڑے۔آج جب کوئی مارشل لاء کی بات کرتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ اس کا منہ نوچ لوں اور جب کوئی مشرف کی بات کرتا ہے تو اس ڈرتا ورتا کی خر مستیوں کا خیالآتا ہے تو کچیچیاں چڑھتی ہیں۔جمہوری دور میں سب کچھ ہوا مگر اس قسم کی مکروہ حرکت تو نہ ہوئی۔قونصلیٹ میں قائم ایک شعبہ تو لگا ہوا ہی پاکستانیوں کی سرکوبی کے لئے تھا۔
ایک مونچھوں والا اس کی سربراہی کر رہا تھا جسے نہ کوئی شرم تھی نہ غیرت نہ حیا۔جس روز پاکستانی دبوچا جاتا وہ ان کے گھر فون کر کے کہتا او ہو! بہت افسوس ہوا ہے۔ اوروہ ان کی گرفتاریوں میں شامل ہوتا تھا۔قاری صاحب پندرہ روز اندر رہے۔ انہیں رہائی دلانے میں میاں نواز شریف نے اپنے تعلقات استعمال کئے اسی طرح ارشد خان کو بھی نکلوا لیا گیا۔باقی لوگ ڈیپورٹ ہو گئے۔ہم پاکستان آ گئے ہم نے جان لیا کہ ہمارا سیاسی گرو کھوبے کا ماڑا ہے۔والدہ صاحبہ اسی دوران اس دنیا سے چلی گئیں جس کی بڑی وجہ میری گرفتاری اور اجڑنا تھا۔قاری صاحب اس دوران مجھ سے رابطے میں رہے۔ایک بار ان کا پاکستان آنا ہوا کہنے لگے چودھری صاحب میں پاکستان آ رہا ہوں بس ایک کام کرنا ہے آپ نے۔مجھے فکر لاحق ہوئی نہ گاڑی نہ پیسہ۔ خالی جیب تو پنڈی میں فقیر بھی نہیں پھرتا۔فرمایا یار میرا استقبال کروانا اور پھول پتیوں سے۔۔۔مجھے یہ کام کرنے میں بڑی مسرت ہوئی میں نے بچوں کو بھیج دیا قاری صاحب خوش ہو گئے۔اسی شام جاوید ہاشمی نے انہیں کھانے پے بلایا سردیوں کی اس رات میں بولان کی سجی کی میز پر ہاشمی صاحب کے گلے شکوے سنے پرانے دوست تھے مجھے یہ جملہ آج بھی یاد ہے ہاشمی صاحب لانگ مارچ پر بھی کہا تھا کہ آپ تحریک انصاف میں آئیں۔میں ایم کیو ایم پر عمران خان کے مضبوط موء قف کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا۔اور مرکز میں ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری نبھا رہا تھا یہ ٢٠٠٨ کی بات ہے۔قاری صاحب سے یہ آخری ملاقات تھی۔میں ٢٠٠٩ میں ایک بار پھر سعودی عرب گیا اور یہی سال ان کی جدائی کا سال تھا۔قاری صاحب ٢٩ رمضان کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ان کا جنازہ حرم مکی میں ہواا اور قبر حضرت خدیجہ والے حصے میں ہوئی۔نماز جنازہ میں سب شریک ہوئے ایک نہ ہوئے تو میاں نواز شریف اور نہ ہی ان کی فیملی کو کوئی فرد۔ شیخ رشید جب عمرے پر آئے تو وہ ان کے گھر گئے جہاں انہوں نے تعزیت بھی کی اور کہا کہ اب میاں جانب میاں صاحب آئیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
تعلق دوستیاں سیاسی نظریوں پر اسطوار نہیںہوتیں۔ہم سے اچھے لوگ کسی اور جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اچھے ہمارے ساتھ ہو جائیں۔ کہتے ہیں جس رات وہ قومے میں گئے اس سے پہلے جن سے عمر بھر کے رشتے تھے ان کی جانب سے کافی دکھ ملا۔میں تفصیل میں جا کر اہل خانہ کے دکھوں کو زیادہ نہیں کرنا چاہتا ان کی موت کا سبب اسی عطار کا لونڈہ تھا جس کی سیوہ میں عمر بتائی ،نجوی اور مروہ کے ابو اس دنیا میں نہیں ہیں چھ سالوں میں قاری شکیل کو جدہ کیا سعودی عرب کا ہر پاکستانی نہیں بھلا سکا۔اگر وہ آج میری بات سنتے تو ان سے کہتا قاری صاحب!ایداں نئی کری دا۔