ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف ایک بار پھراپنے ایک متنازع بیان کی وجہ سے ایرانی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ ایرانی خارجہ پالیسی میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی مبینہ مداخلت سےمتعلق آڈیو لیک ہونے اور اس کے نتیجے میں ایران میں ہنگامہ آرائی کے بعد جواد ظریف نے دعویٰ کیا ہے کہ سلیمانی کے ساتھ رابطےکے لیے ایران نے امریکا کو تین بار معلومات فراہم کی تھیں۔
ایرانی اصلاح پسند ویب سائٹ ‘جماران’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جواد ظریف نے کہا کہ عراق پر امریکی حملے سے پہلے میں نے امریکیوں کے ساتھ دو بار بات چیت کی اور ایک بار حملے کے بعد رابطہ کیا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ویڈیو میں مزید کہا کہ ان تمام گفت و شنید میں ہم نے قاسم سلیمانی کے ساتھ ہم آہنگی سے متعلق امریکیوں کو معلومات اور آراء فراہم کیں۔ جب یہ معلومات امریکیوںکو پیش کی گئیں تو جواد ظریف اس وقت اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر تھے۔
اگرچہ وہ واشنگٹن کو معلومات فراہم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ہم نے عراق کے خلاف امریکا کی کارروائی کی مخالفت کی اور ہم نے انہیں بتایا کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟۔ امریکیوں کے حملوں کے بعد کیا ہوا وہ آپ جانتے ہیں۔
دوسری جانب کل اتوار کے روز ایرانی وزیر خارجہ نے ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں انہوں نے اپنی ” آڈیو لیک ” کے بارے میں وضاحت کی۔ اس موقعے پرپارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور ایک بڑی تعداد ارکان نےان کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ انہوںنے جواد ظریف کو پالیمنٹ کی طرف سے سخت جواب دینے کی بھی دھمکی دی۔
ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ آڈیو لیک کے بارے میں ظریف کے جوابات کے تسلی بخش نہیں اور وہ ان کی باتوں پر قائل نہیں ہوسکے ہیں۔
خیال رہے کہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے ایک انٹرویو کی آڈیو چند ہفتے قبل سامنے آئی تھی جس نےایرانی سیاست میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ اس آڈیو میں انہوں نے ایران کے طاقت ور ادارے سپاہ پاسداران انقلاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر خارجہ پالیسی میں مداخلت کا الزام عاید کیا تھا۔ انہوں نے مقتول قاسم سلیمانی کا نام لے کر کہا تھا کہ وہ ایرانی وزارت خارجہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔