قطر (اصل میڈیا ڈیسک) خلیجی عرب ریاست قطر میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکین وطن کارکنوں کے لیے کم از کم ایک ہزار ریال کی لازمی ماہانہ اجرت کا نیا قانون آج ہفتہ بیس مارچ سے باقاعدہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔
تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال خلیج فارس کی اس ریاست میں یہ نیا قانون روزگار کی ملکی منڈی میں وسیع تر اصلاحات کے پروگرام کے ایک حصے کے طور پر منظور کیا گیا تھا، جو آج سے مؤثر ہو گیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے قطر نیوز ایجنسی نے ترقیاتی امور، روزگار اور سماجی بہبود کی ملکی وزارت کے ایک اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کا اطلاق ملک میں مقیم تمام غیر قطری قومیتوں کے افراد پر ہو گا اور ایسے غیر ملکی کارکنوں میں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔
یہ کم از کم لازمی ماہانہ تنخواہ 1000 قطری ریال (تقریباﹰ 275 امریکی ڈالر) رکھی گئی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی قطر خطے کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے اپنے ہاں کسی بھی ملک کے شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ روا رکھنے کے بجائے تمام غیر ملکیوں کے لیے مساوی بنیادوں پر کم از کم لازمی ماہانہ اجرت کا نظام اپنا لیا ہے۔
اس قانون کے تحت قطری آجرین کو اس امر کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ ان کے تمام ملازمین کو نا صرف ہر ماہ لازمی طور پر کم از کم طے شدہ تنخواہ ضرور ملے بلکہ ساتھ ہی ان کو رہائش اور خوراک کی مناسب سہولیات کی فراہمی بھی لازمی کر دی گئی ہے۔
جن کارکنوں کو اب رہائش اور خوراک ان کے آجرین خود مہیا نہیں کریں گے، ان کو ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ خوراک کے لیے کم از کم 300 ریال اور رہائش کے لیے 500 ریال کی نقد ادائیگیاں بھی لازمی ہوں گی۔
دوحہ حکومت نے گزشتہ برس اگست میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں تارکین وطن کارکنوں کے لیے کم از کم لازمی اجرت کا نظام متعارف کرانا چاہتی ہے، جس کے ذریعے عملاﹰ کسی نا کسی کفیل والے اس روایتی نظام کفالت کا خاتمہ کرنا بھی مقصود تھا، جس کے تحت بین الاقوامی ناقدین کے مطابق مقامی آجر بہت سے واقعات میں تارکین وطن کے مالی اور سماجی استحصال کے مرتکب ہوتے تھے۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
اب نئے قانون کے تحت قطر میں مقیم غیر ملکی کارکنوں کے لیے اپنے آجرین کی اجازت کے بغیر بھی اپنی ملازمت تبدیل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
قطری حکومت نے ملک میں روزگار کی منڈی میں یہ اصلاحات ایک ایسے وقت پر نافذ کی ہیں، جب قطر کی طرف سے اگلے برس فٹ بال کے فیفا ورلڈ کپ 2022 کی میزبانی میں بہت زیادہ عرصہ باقی نہیں بچا۔
برطانوی اخبار گارڈیئن نے ابھی گزشتہ ماہ ہی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ 2010ء میں جب سے قطر کو 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق ملے ہیں، تب سے اب تک اس خلیجی ریاست میں بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6500 سے زائد کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس میوزیم کی تعمیر اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان واقع یہ خلیجی عرب ریاست ایک ’ثقافتی سپر طاقت‘ بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ قطر کا یہ نوتعمیر شدہ عجائب گھر دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے صحرا میں سورج کی بہت تیز دھوپ میں صحرائی گلاب سوکھ کر پتھر ہو گئے ہوں۔
اس اخباری رپورٹ کی اشاعت کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دوحہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں قطر میں غیر ملکی کارکنوں کی اموات کی باقاعدہ چھان بین کرائے۔
دوسری طرف دوحہ حکومت نے برطانوی جریدے کی اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد اپنے ردعمل میں یہ تو نا کہا کہ اتنے برسوں میں مہمان کارکنوں کی ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد غلط ہے، تاہم یہ ضرور کہا گیا تھا کہ قطر میں جتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی شہری کام کرتے ہیں، ان میں سے 2010ء سے لے کر گزشتہ ماہ فروری تک جتنے تارکین وطن کا انتقال ہوا، ان کی تعداد پورے ملک میں مہمان کارکنوں کی مجموعی تعداد سے متناسب ہے۔