سابق صدرِ پاکستان پرویز مشرف کے دورِحکومت میں سفارت خانہ پاکستان دوحہ قطر میں ایک تقریب منعقد ہو رہی تھی جس میں بندہ ناچیز بھی شامل تھا۔اعجازالحق فرزندِضیاالحق اور قاضی اشرف حکومت پاکستان کے خصوصی مشن پر قطر تشریف لائے ہوئے تھے۔یہ دونوں احباب اُس منعقدہ تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے،دونوں صاحبانِ علم و سیاست نے اپنی اپنی بساطِ علم کے مطابق فکروفلسفہ اور شعورو آگہی سے حاضرین کو ایسے مستفید فرمایا کہ جس کا اندازہ آپ سب تقریب کے اختتام پر حاضرین میں ایک پاکستانی کے سوال پراعجاز الحق کے اس جواب سے لگا سکتے ہیں کہ ”قطر نے پاکستانی ویزوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے لہذا آپ حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت قطر سے استدعا کیجئے گا کہ ویزہ پالیسی کو نرم کیا جائے”اعجاز الحق نے اس کا جواب یوں دیا کہ ”کیا ہوا اگر قطر پاکستانیوں کو ویزہ جاری نہیں کرتا ،یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے،دنیا بہت وسیع ہے،آپ کسی بھی بڑے ملک میں چلے جائیں”یہ کسی لحاظ سے بھی امورِبین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی کے اصولوں کے مطابق جواب نہیں تھا۔اُس وقت سے موجودہ حکومت تک یعنی تحریک انصاف کی حکومت کے حلف اٹھانے تک ویزہ پالیسی پر نظرِ ثانی کروانے والا کوئی بھی پاکستانی سیاستدان قطر حکومت کو قائل نہ کر سکا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھاتے ہی بہت سی مشکلات درپیش تھیں ،جن میں بیرونی قرضوں کا بوجھ،ان قرضوں پر سود کی ادائیگی،خارجہ پالیسی ،خطہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنااور خاص کر برادر اسلامی ممالک و سیاسی و معاشی سپر پاورز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا نہ صرف راضی کرنا بلکہ عملی اقدامات کے لئے پیش قدمی بھی کرنا۔معیشت کی زبوں حالی کو سہارا دینے کے لئے پاکستان نے دوست ملک چین ،اسلامی ممالک سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،ملائشیا اور قطر کو پاکستان میں سرمایہ کاری اور بیل آئوٹ پیکج کے لئے ان سے مدد لینا،سب سے بڑا کام ہے جو موجودہ حکومت نے بہت تھوڑے عرصہ میں کیا،وزیر اعظم نے حکومت سنبھالتے ہی قطر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فوری اقدامات کئے ان میں قطر میں مستعد اور تجربہ کار سفیر پاکستان سید احسن رضا کی تعیناتی، امورِخارجہ کے ماہر شاہ محمود قریشی کا دورہ قطر،سابق وزیرِ خزانہ اسد عمر کی دوحہ میں قطری بزنس مین اور حکومتی وفود سے ملاقاتیں کر کے انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا شامل تھا۔
کیونکہ وزیر ِ اعظم قطر کی سیاسی و بین القوامی سیاست میں قطر کے کردار اور اہمیت کو بخوبی جانتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں قطر کی کیا خدمات ہیں،امریکہ اور طالبان کے درمیان مزاکرات کے کئی دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہو چکے ہیں،قطر گیس کی پیداوار میں دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔2022 فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کے لئے بھی قطر کو سیکیورٹی و دیگر انتظامات کے لئے تکنیکی ماہرین اور افرادی قوت درکار ہوگی،ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیرِ اعظم نے جن دوستوں کی جانب تعاون کے لئے قدم بڑھائے ان میں قطر نمایاں حیثیت کا حامل ملک ہے۔اسی سلسلہ میں امسال جنوری میں وزیرِاعظم پاکستان نے قطر کا دورہ بھی کیا۔بازدید کے طور پر اور وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پرامیرِقطر صاحب السمو شیخ تمیم بن حمد الثانی نے بھی گذشتہ دنوں دو روزہ پاکستا ن کا دورہ کیا جس میں پاک قطر تعلقات میں سرمایہ کاری،تجارت،سیاحت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سلسلہ میں اقدامات جیسی جہتیں سامنے آئی ہیں۔امیرِ قطر کی طرف سے دورہ پاکستان پر اس بات کا اعلان بھی کیا گیا کہ قطر پاکستان میں بائیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا،یہ صرف اعلان ہی نہیں تھا بلکہ گذشتہ روز حفیظ شیخ مشیرِ خزانہ نے قطری حکومت کا فوری طور پر تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور ڈیپازٹ کے لئے شکریہ بھی ادا کیا ہے یعنی پاک قطر تعلقات کے ثمرات نظر آنابھی شروع ہو گئے ہیں۔قطری حکومت کے تین ارب ڈالر دینے سے مراد ہے کہ قطری حکومت نے وزیرِاعظم پر اعتماد کا اظہار کر دیا ہے،پاک قطرشراکت داری اوردو طرفہ تعلقات کا آغاز ہو چکا ہے۔یقینا اس اقدام سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے گی اور قرض پر سود کی ادائیگی میں بھی کچھ آسانی پیدا ہو جائے گی۔
میں چونکہ عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہوں ،اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ قطری لوگوں کے دل بہت بڑے ہیں اور وہ پاکستان اور پاکستانیوںکے لئے دھڑکتے بھی ہیں،اسی لئے وہ پاکستانیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔امیرِقطر کا حالیہ دورہ پاکستان اور سرمایہ کاری کے عندیہ نے میری اس بات پر مہر صادق ثبت کر دی ہے اور چند سال قبل اعجازالحق کے اُس بیان کو جھوٹ ثابت کر دیا ہے کہ قطر بھلے چھوٹا ملک ہو مگر ان کے دل بہت بڑے ہیں۔اب چلتے ہیں قطری خط کی حقیقت و اہمیت کی طرف،اس بات کا سہرا بھی موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کو جاتا ہے کہ جس نے سابق وزیرِاعظم اور اس کی ٹیم ممبران کے اثاثوں اور کرپشن کی ایک لمبی فہرست دھرنے کے دوران پاکستانی عوام کے سامنے پیش کی۔
شروع شروع میں تو مجھے بھی لگا کہ سب بکواسیات،سیاسی چال اور عوا م کے جذبات سے کھیلنے والی باتیں ہیں ،جو چند روز بعد دودھ کے ابال کی طرح بیٹھ جائیں گی،مگر جب شیخ حمد بن جابر کے قطری خط کے حوالہ سے ان کا جھوٹ عوام اور عدالت کے سامنے آیا تو لاکھوں لوگوں کی طرح مجھے بھی اپنی رائے پر نظرِثانی کرنا پڑی کہ محترم پاکستان کے لئے نہیں بلکہ اپنے کاروبار،ذاتی سرمایہ کاری کو بڑھانے،فلیٹ خریدنے ،انڈسٹری لگانے اور خاندانی اثاثوں میں اضافہ کے لئے سب کر رہے تھے۔اس غرض اور لالچ میں ”سرکار”نے ملک،ملکی مفاد،عوام اور اداروں کو کہیں بہت پیچھے پھینک دیا ہوا تھا۔ایسی پیدا کردہ مشکلات میں نئی حکومت کا قطر سے نئی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنا اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری اور اس کے تحفظات کا یقین دلانا بلاشبہ حالیہ حکومت کا احسن قدم ہے،اس سلسہ میں موجودہ حکومت کی پوری ٹیم بشمول سفیرِپاکستان سید احسن رضا سے لے کر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیرِ اعظم کے مشیر زلفی بخاری تک سب دادوتحسین کے مستحق ہیں،خدا کرے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی یہ کشتی برُے سیاسی موسموں کا مقابلہ کرتے ہوئے خوش حالی کے سمندر مین یونہی رواں دواں رہے۔آمین