تحریر : روشن خٹک 1982 کی بات ہے،میں پنجاب لاء کالج لاہور میں قانون کا طالبعلم تھا، جوان لڑکے فارغ وقت میں عموما گھپ شپ میں مصروف ہو جاتے تھے ،سر دیوں کا موسم تھا ، مجھے یاد نہیں کہ ان دنوں قطری شہزادے لا ہور آئے ہو ئے تھے یا سعودی شہزادے ، مگر ان کے بارے میں جو قیاس آرائیاں ہوتی تھیں یا طلباء ان کے بارے میںجو دور کی کو ڑی لانے میں اپنا کمال دکھاتے تھے ،اسے سن کر میرا سر شرم سے جھک جاتا تھا اور میں اکثر اپنے طالبعلم سا تھیوں کو کہا کرتا تھا کہ پلیز ایسی بے پرکیاں نہ اڑایا کریں ایسی باتوں سے وطنِ عزیز کی بد نامی ہوتی ہے ۔ لیکن جب عقل کی داڑھ نکل آئی ،قلم ہاتھ میں تھاما، خبروں کی تحقیق کی جستجوپیدا ہو ئی تو پتہ چلا کہ اس وقت کی باتوں میں سچائی تھی مگر میں ان باتوں سے نا واقف تھا۔پچھلے دنوں قطری شہزادوں کا لا ہور آنے کا بڑا چرچہ رہا، وزیر اعظم محمد نواز شریف کے صاحبزادے نے ائیر پورٹ پر ان کا خصوصی استقبال کیا۔طعام و کلام کے بعد انہیں تلور کے شکار کے لئے نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ ایسا کرنے میں انہیں خصوصی آسانیاں فراہم کی گئیں۔
حالانکہ پاکستان کے قانون کے مطابق تلور کے شکار پر پابندی ہے ۔مگر ارضِ پاک میں جہاں جہاں قطری شہزادوں نے جانا تھا وہاں جنگل میں منگل کا سماں بندھ گیا،شہزادوں کی گزر گاہوں مین پولیس کے ملازمین سینہ تان کے چوکس کھڑی ہو گئے،جدید ترین لینڈ کروز کی بھر مار نظر آئی ۔اور اس کے ساتھ ہی وسطِ ایشیا سے گرم علاقوں کی طرف آنے والے اس خوبصورت پرندے کی شامت بھی آئی، تلور کا شمار خوبصورت صحرائی پرندوں میں ہو تا ہوتا ہے۔تلور کا گوشت جنسی خواہشات کو بڑھانے کے لئے ٹانک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی لمبائی چونچ سے لے کر دم تک اوسطا 65 سینٹی میٹر ہو تی ہے ْنر تلور مادہ تلور سے سائز میں دس فیصد بڑا ہو تا ہے ،کیونکہ نر اور مادہ کی گردن اور دم کی لمبائی میں فرق ہو تا ہے ۔اس کے پروں کا رنگ اسے نیم صحرائی علاقوں میں اپنے دشمن سے چھپنے میں مدد دیتا ہے۔افزائش نسل کے موسم میں اس کا رقص بہت زیادہ دلکش اور قابلِ دید ہو تا ہے۔
1976ء اس کے شکار پر بین الاقامی اداروں نے مکمل پابندی عائد کردی اور 1992ء میں اس معاملے میں مزید سختی کی گئی مگر ہمارے حکمران ہمیشہ سے ذاتی تعلقات بنانے کے خواہاں رہتے ہیں ، احساسِ کمتری میں مبتلا ہمارے حکمران ہمیشہ بادشاہوں کی دلجوئی میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، پاکستان میں اس نایاب پرندے کی جتنی بڑی تعداد میں قطری اور عرب شہزادوں کے ہاتھوں شکار کیا جاتا ہے ،اتنا دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں کیا جاتا۔اوسطا اکیس دنوں میں تقریبا 2100تلوروں کا شکار کیا جاتاہے اور پھر اسے فریز باکس میں محفوظ کر کے باہر لے جایا جاتا ہے۔
Qatar Prince Hunting
لیکن سو چنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ قطری شہزادے پاکستان تلور کا شکار کرنے کیوں آتے ہیں ۔۔؟ اللہ کی ہر نعمت انہیں اپنے دیس میں دستیاب ہے ۔تیتر،بٹیر،سّسی، سب کچھ تو ہے، پھر تلور کا شکار کیوں…؟ اور اس پر اربوں روپے کا خرچہ چہ معنی وارد ..؟ ایک با وثوق زریعہ کی مطابق اندر کی کہانی اس شکار سے بھی زیادہ ہولناک اور بر بریت سے معمور ہے۔آئیے..! یہ کہانی آپ کو آرمی کے ایک ریٹائرڈ میجر کے زبانی سناتے ہیں،،” مجھے دو لاکھ ماہانہ تنخواہ پر سکیوریٹی آفیسر کی ذمہ داری سونپی گئی ، میری ڈیوٹی شہزادوں کے ساتھ ہر لمحہ رہنا،ان کو نظر میں رکھنا اور بحفاظت ائیر پورٹ پہچانا تھا۔میں دیکھا کہ عرب شہزادے شکار کے لئے ہمیشہ اکیلے آتے ہیں۔ میں سوچتا،ان کے ساتھ ان کی فیمیلی یا بیویاں نہیں ّآتیں..؟کیا ان کو تلور کا گوشت پسند نہیں ؟لیکن اس راز کا مجھے بہت جلد پتہ چل گیا اور میری غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اپنی اس ملازمت کو جاری رکھوں،بوجوہ میں نے فورا استعفیٰ دے دیا، انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہو ئے بتایا کہ ان شہزادوں کے لئے خصوصی رہائش گاہوں کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے،یہ دوپہر کو شکار شروع کرتے ہیں ،شکار میں باز، شکرے،کتّے اور گھوڑے استعمال ہوتے ہیں ،شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، پھر ہانڈی، کڑھائی اور سٹیم روسٹ کے ساتھ بیسیوں لوازمات کے ساتھ عشاء کے نماز سے پہلے کھانا کھایاجاتا ہے۔
پھر یہ شہزادے اپنے رہائش گاہوں میں چلے جاتے ہیں جہاں حکومتِ پاکستان،مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی ہوس پوری کرنے کے لئے کم عمر کنواری لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں،عمر بارہ سال سے سولہ سال کے درمیان اور کنواری ہوں۔میجر صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ اندر کے حالات تو میں نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی چڑیا کے ساتھ کرتا ہے کیونکہ میں نے ایسی آوازیں سنی ہیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں۔”
آج 16دسمبر کا دن ہے ،سقوطِ ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے منے معصوم بچوں کا دکھ خون کے آنسو رلا ہی رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آج ہی کے دن مختلف اخبارات میں چھپنے والی اس خبر نے بھی ہمیں دکھی بنا دیا ،جس میں لکھا ہے کہ” پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے قطر کے شہزادے خلیفہ بن عماد بن عبداللہ ملک کے مختلف علاقوں میں شکار کھیلنے کے بعد لاہور پہنچ گئے۔ شکار کا شوق پورا کرنے کے بعد قطری شہزادے نے لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کی اور پاکستان میں شکار کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر وزیر اعلیٰ کا شکریہ ادا کیا ”’میں سوچتا رہا،اگر ہمارے حکمرانوں کا یہی حال رہا تو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی عزّت کیا خاک ہو گی؟ قومی زندگی کا وقار تو خود داری ،غیرت و حمیت پر مبنی کارکردگی سے مشروط ہے ۔افسوس صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے انفرادی مفادات کے مقابلے میں قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر قومی شان و شوکت کے بلند و بالا مینار کو زمین بوس کر دیا ہے۔۔۔