علامہ قاضی انوار الحق رحمة اللہ علیہ

 Qazi Anwar-ul-Haq

Qazi Anwar-ul-Haq

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

پاک وہند کی سرزمین ایسی نابغۂ روزگار ہستیوں سے بھری پڑی ہے ،اللہ نے اِس زمین کو کبھی تہی دست نہیںرکھا اور پاک وہند کاایک زرخیزخطہ کیمبل پوراِس حوالے سے بہت ثروت مند ہے جسے قاضی انوار الحق رحمة اللہ علیہ جیسا گوہرِ نایاب میسر آیا۔علامہ قاضی انوارالحق کی ذاتِ بابرکات سے کون ہے جوواقف نہیں۔آپ کا خانوادہ برِصغیر میں صدیوں سے علم ودانش کے موتی بکھیررہاہے۔آپ کے والدِ گرامی مولاناغلام جیلانی رحمة اللہ علیہ قریب قریب پچاس کتب کے مصنف تھے اورآپ کے دوچچاقاضی غلام ربانی اورقاضی غلام سبحانی بھی صاحبِ تصانیف علمامیں شمارکیے جاتے تھے اور آپ کے دادا قاضی نادرالدین بھی اپنے وقت کے مشاہیر علمائے کرام میں گنے جاتے تھے۔قاضی نادرالدین نہ صرف عالمِ دین تھے بلکہ صوفی شاعر بھی تھے۔ جنھوںنے زمانے کوزندگی کاچلن دیا۔انسانی سوچ کی بوسیدہ اورشکستہ گلیوں میںفکر کے چراغ جلائے۔ میں اگر اِس خانوادے کے اوصاف شمار کروں تو شاید نہ کرسکوں۔

علامہ قاضی انوارالحق رحمة اللہ علیہ ١٩٠٨ء میں عالمِ آب وگِل میں تشریف فرما ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی مولاناغلام جیلانی سے حاصل کی اور کیمبل پور( حال اٹک) کے ایک سکول میںداخل ہوگئے۔ تعلیمی سلسلے کے دوران ہی آپ فتح پور(سیکری) تشریف لے گئے اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے میںمگن ہوگئے۔ وہاں سے فراغت کے بعد افریقہ پہنچے اورخودکواسلام کے لیے وقف کردیا۔نتیجتاًلاتعدادغیرمسلموں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اسلام قبول کیا۔افریقہ سے واپس آئے توریاست جوناگڑھ میں چیف جسٹس کے عہدے پرفائز ہوگئے لیکن آپ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اپنے وطن کیمبل پور تشریف لے آئے۔

کیمبل پور کی دھرتی کو یہ شرف حاصل ہے کہ ایسی معجزنما شخصیت کواپنے دامن میں سمیٹے آج بھی لہلہارہی ہے۔ بقول غالب:

سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

بزرگانِ دین کی حیات میں وقوع پذیر ہونے والے زریں کارناموں سے شناسائی ہماری نسل کے لیے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کے اِن مقبول بندوں نے مکتبۂ فکر،رنگ،قوم،قبیلہ سے قطع نظر انسانیت کی اصلاح اور بھلائی کے لیے کام کیا۔ علماء ،انبیاء کے وارث ہیں، علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ کرام تھے جن کے بعد تابعین ،پھرتبع تابعین نے اسلامی تعلیمات کے فروغ کا بیڑااُٹھایا اور معاشرے کو اسلام کی روشن تعلیمات سے منورکیا۔یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔مشوانی سادات کے عظیم بزرگ ،مشائخ حضرت خواجہ بلندنواز گیسودراز کواللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سعادت خصوصی طورپرعنایت ہوئی کہ اُن کی نسل نے تبلیغِ دین کا فریضہ دنیابھرمیںانجام دیا اور لاکھوں غیرمسلموں کو مشرب بااسلام کرنے کے علاوہ اپنے عملی کردار اورعلم سے معاشرے کی اصلاح اورکردارسازی میں اہم کردارادا کیا۔ ان شخصیات میں سے ایک معروف عالمِ دین ،مبلغ، ادیب، بین الاقوامی اسلامی سکالر حضرت علامہ قاضی انوارالحق کی شخصیت بھی ہے جنھوں نے اپنی تمام عمر ، ملی،سماجی خدمات اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کو اپناا وڑھنابچھونا بنائے رکھا۔ آپ کی دینی، ملی خدمات کاایک زمانہ معترف ہے۔ آپ کو بیک وقت کئی زبانوں پردسترس حاصل تھی جن میںانگریزی،عربی،فارسی، ڈچ زبانیں قابلِ ذکر ہیں۔ آپ بیرونی ممالک میں تبلیغِ دین کافریضہ انجام دیتے وقت وہاں کی مقامی زبانوںمیں بات کرتے جس وجہ سے آپ کا پیغام اور تعلیمات سننے والے کے دل میں گھر جاتیں۔

آپ نے ہمیشہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتحادِ امت کادرس دیا۔آپ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ آپ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہمیشہ سامنے رکھتے اور اس ملک کے معاشی ، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کاحل اسلام کے نفاد کوقرار دیتے۔ آپ جب بھی مذہبی،سماجی تقریبات میں خطاب کرتے ،سلامتی، میانہ روی کادرس دیتے، ٹھوس دلائل ،منطقی انداز اور عالمانہ طریقۂ خطابت اپناتے جو سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔ جدیدپہلو، سائنسی تحقیق اور حالاتِ حاضرہ کو بھی زیرِ بحث لاتے۔ معترض کے اعتراض پر دھیمے اور مدبرانہ لہجے میں دلائل کے ساتھ اُسے جواب دے کر نہ صرف مطمئن کردیتے بلکہ وہ آپ کے اس طرزِ عمل سے آپ کی شخصیت کاگرویدہ ہوجاتا۔

آپ حافظِ قرآن اور وسعتِ مطالعہ رکھتے تھے۔ ادبی حلقے آپ سے کافی محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ١٩٥٧ء میں اٹک شہر میں قائم ہونے والی پہلی ادبی تنظیم ”محفلِ شعروادب” کے اجلاس کی صدارت فرمائی۔ آپ اُردو ،پنجابی اور پشتومیںصوفیانہ شاعری بھی کرتے تھے۔ آپ کی کئی تصانیف منصہ شہود پر آکر دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ جن میں ”خلا میں خدا کی تلاش”،”انورالقرآن”،”سیرتِ غوثیہ”، حقوقِ والدین” ،”فلسفۂ رمضان”، ”اسلامی تعلیم ”اوردیگر کتب شامل ہیں۔ آپ کے کئی مقالے بھی شائع ہوئے۔ کئی کتب ہنوزتشنۂ اشاعت ہیں۔ جو آپ کے صاحبزادے ڈاکٹرقاضی امجد حسین کاظمی اشاعت کاارادہ رکھتے ہیں۔ آپ کے علمی خطبات کی دھوم کی وجہ سے دوردراز علاقوں سے لوگ تقاریرسننے کے لیے مختلف تقریبات میں جوق درجوق میلوں کاسفرپیدل طے کرکے پہنچتے ۔آپ کو اللہ پاک نے حجِ بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب فرمائی۔ اس زمانے میں حج کاسفر مشکلات سے بھرپور پیدل ہواکرتاتھا۔ جامع مسجد حنفیہ اور مندرجہ ضیاء القرآن کی بنیاد آپ ہی نے رکھی۔ آپ بعدازنمازِ عشاء قرآن وحدیث کادرس دیاکرتے۔ آپ کے گرد ایک مجمع اکٹھارہتا۔آپ کے شاگردوں میں صاحبزادگان کے علاوہ دلاور خان سابق گورنرسندھ، اے ٹی چودھری چیف ایڈیٹرپاکستان ٹائمز،پروفیسرغلام رسول، صاحبزادہ عبدالعادل،مولانا ارفاق رضوی،مولانافضل الرحمن سواتی،قاری ولی محمد،مولوی عبداللہ، قاضی مسعوداحمد و دیگر شامل ہیں۔

آپ کے پاس کسی شرعی مسئلے سے متعلق کوئی شخص اگر آتاتوخوشی محسوس کرتے اور راہ چلتے بھی کوئی آپ کو روک کر کچھ دریافت کرتاتو آپ ناراض نہ ہوتے کیونکہ آپ حلیم الطبع اور وسیع المشرب انسان تھے۔ ایک بارکمشنرکے ہاں آپ دعوت پر مدعو تھے۔ جہاں ضلع کی چیدہ چیدہ شخصیات اور صوبائی افسران بھی شریک تھے۔کھانے کے دوران آپ ایک شاگردکے ہمراہ کھانالے کر نیچے بیٹھ گئے اوراورآپ وہ واحدشخص تھے جنھوں نے بیٹھ کرکھاناتناول فرمایا۔ محفل کے اختتام پر آپ نے کمشنرسے کہا کہ آپ اپنے افسروںکے حکم کے پابند ہیں،اس لیے آپ لوگوں نے کھڑے ہوکرکھاناکھایا اور کھلایا۔ جبکہ میںاللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کاپابندہوں،اس لیے اُن کے حکم کے مطابق بیٹھ کرکھاناتناول کیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام آپ کابے حداحترام کرتے تھے۔ متنازعہ مسائل میں آپ سے رجوع کیاجاتا، آپ کی ذات پر اعتمادکرتے۔پیرغلام فرید چشتی صاحب فرماتے ہیں کہ میںابھی لڑکپن کی عمرمیںاپنے والدمحترم جو علاقہ چھچھ کے معروف عالمِ دین تھے، کے ساتھ علاقے کے علماء کے ایک وفدکے ساتھ ایک متنازعہ مسئلے جس پر علمائے کرام متفق نہ تھے، لے کر قاضی انورالحق کے پاس حاضر ہوئے۔ چندگھنٹوںکے بعد تمام علمائے کرام آپ کی حتمی رائے پرمتفق ہوگئے اورآپ کی اقتدامیں نمازِعصر ادا کی۔ اس طرح محرم الحرام کے موقع پر آپ کوامام بارگاہ میںمدعوکیاگیاجہاں پرآپ نے واقعہ کربلا میں خطاب کرکے ہرآنکھ کو پُرنم کردیا۔ آپ نے ہمیشہ امن ومحبت اورانس والفت کا درس دیا۔

آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

 Dr Shuja Akhtar Awan

Dr Shuja Akhtar Awan

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان
0312-2878330