اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے 4 ماہ بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
7 ججز کا 173 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی کی بنیاد پر دائر کیا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی 11 وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
پہلی وجہ: صدر اور وزیر اعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کی منظوری نہیں دی، یہ منظوری وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے دی جس کا انہیں آئینی و قانونی اختیار نہیں تھا۔
دوسری وجہ: صدارتی ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116 ایک کے تحت نوٹس دینا ضروری تھا جو نہیں دیا گیا۔
تیسری وجہ: ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 116 ایک کی تشریح کے بغیر یہ فرض کر لیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے بیوی اور بچوں کی جائیدادیں ظاہر کرنا لازمی تھا۔
چوتھی وجہ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔
پانچویں وجہ: صدارتی ریفرنس میں ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
چھٹی وجہ: صدر مملکت کو ریفرنس کے مرکزی کرداروں، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے غیر قانونی ایڈوائس دی۔
ساتویں وجہ: صدر مملکت نے قانونی نکات پر تیسرے فریق سے بامقصد ایڈوائس نہیں لی۔
آٹھویں وجہ: صدر مملکت ریفرنس میں موجود نقائص کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
نویں وجہ: صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 209 پانچ کے تحت اپنی رائے قائم نہیں کی۔
دسویں وجہ: جواب گزاروں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں تک غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کی۔
گیارہویں وجہ: معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔
تفصیلی فیصلے میں ان وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس دائر کر کے قواعد و ضوابط اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی اس لیے یہ ریفرنس کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے بیوی بچوں سے متعلق ٹیکس کا معاملہ مجاز اتھارٹیز کو بھجوایا گیا ہے، اگر اس فورم پر کوئی چیز سامنے آ تی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل از خود کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے لیے7ججز کا فیصلہ متفقہ ہے جب کہ جسٹس فیصل عرب نے اضافی نوٹ لکھا ہے اور جسٹس یحیی آفریدی کا اختلافی نوٹ ہے۔
23 اکتوبر یعنی آج جاری کیے گئے اس تفصیلی فیصلے پر بینچ کے 2 ارکان جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ کے دستخط ہی نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز متفقہ کا تھا۔
7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی تھی۔
فیصلے کے مطابق 7 جج صاحبان نے ٹیکس معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا ہے، انکم ٹیکس کمشنر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے گا، انکم ٹیکس کمشنر 60 روز میں ٹیکس معاملے سے متعلق کارروائی مکمل کرے گا۔