سیالکوٹ (رپورٹ۔ارسلان طارق بٹ سراب۔) مجلسِ قلندرانِ اقبال نے عید کے پر مسرت موقع پر سیالکوٹ کی مردم خیز دھرتی پر ایک عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جس میں سیالکوٹ کے نامی گرامی شعرا ء نے شرکت کر کے اس مشاعرے کو یاد گار بنا دیا۔مجلسِ قلندرانِ اقبال کا واحد مقصد علم و ادب کی ترویج ہے۔
وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی فکر اور علامہ اقبال کے پیغام کو عام کرنے میں جٹی ہوئی ہے اور عید ملن مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں انھیں زبردست کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ان کی بے لوث کاوشیں رنگ لا رہی ہیں کیونکہ شہرِ سیالکوٹ کی با اثر شخصیات ان کے شانہ بہ نشانہ کھڑی ہو کر انھیں آگے بڑھنے کیلئے اپنے دستِ تعاون سے نواز رہی ہیں۔شہرِ سیالکوٹ اپنے علمی اور ادبی پہلو سے دنیا بھر میں اپنی خاص پہچان رکھتا ہے لہذا یہاں پر ہر شخص کے اندر شعرو ادب کے ذوق کا ایک دریا بہتا ہے جسے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اقبال و فیض کا شہر ہونے کی نسبت سے لوگ شعر و ادب سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس کی پذیرائی میں بخل سے کام بھی نہیں لیتے ۔وہ شعر کی لطافتوں اور اس کی نغمگی پر شعراء کو دادو سے بھی نوازتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں تا کہ شعرا پوری دلجمعی اور وارفتگی سے اپنے فن کو مزید نکھارنے اور سنوارنے میں اپنا خونِ جگر صرف کرتے رہیں ۔،۔
۔،۔عید ملن مشاعرے میں جن شعرا نے اپنا کلام پڑھا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔،۔ سید زاہد بخاری۔۔طارق حسین بٹ شان۔۔اعجاز عزائی۔۔مرزا یونس طالب۔۔خواجہ طارق اسماعیل۔۔محمود کیفی۔۔فرانسس سائل۔۔عبدالرزاق خاکی ۔۔اجمل فاروقی۔۔ الیاس انجم۔۔امانت علی امانت۔۔ارسلان طارق بٹ سراب۔۔محمد اویس عاجز۔۔فرید احمد۔۔اشفاق نیاز۔۔صوفی عبدالجلیل۔۔طارق ملک۔۔حافظ عمران۔۔
مشاعرے کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت اختر علی کے حصے میں آئی جبکہ نعتِ رسولِ مقبول کی سعادت اویس عاجز کا مقدر بنی۔پاکستان گلوز ایسوسی ایشن کا شاندار ہال سامعین سے کچھا کچھ کھچ بھرا ہوا تھا ایسے لگتا تھا کہ لوگ اس مشاعرے میں شرکت کیلئے کئی دنوںسے بے چین تھے۔ہر اچھے شعر پر داد کا منظر قابلِ دید تھا۔شعرا کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے کہ ان کی کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے ۔وہ اس بات پر شاداں فرحان تھے کہ ان کے سامنے ایسے سامعین موجود ہیں جو شعری ذوق سے مالا مال ہیں۔
تقریب کی نظامت پر فائز شخصیت عبدا لشکور مرزا نے بڑی مہارت سے مشاعرے کی نازک کاروائی کو آگے بڑھایا۔انھوں نے حا ضرین اور تقریب کے درمیان تعلق کو کسی بھی لمحے کمزور نہیں ہونے دیااور شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے بر جستہ جملوں اور پر جوش انداز نے سامعین کی توجہ کو ہمہ وقت مشاعرے میں زندہ رکھا جس سے مشاعرے کے حسن میں چار چاند لگ گئے ۔،۔تقریب کے مہمانِ خصوصی فاروق مائر نے اس مو قع پر خطاب کرتے ہوئے کہا شعرو ادب کسی بھی معاشرے کے ذہنی رحجان کا عکاس ہوتا ہے۔مجھے ایک مدت کے بعد کسی خوبصورت شعری نشست میں شرکت کا موقعہ ملا ہے۔ اس مشاعرے کی کامیابی کا سارا کریڈٹ طارق حسین بٹ کو جاتا ہے ۔ ا نھوں نے جس طرح سے ادبی فضا کو جاندار بنایا ہے یہ ادب سے ان کی گہری وابستگی کا غماز ہے۔اقبال نے کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ۔اب ہمارے سامنے طارق حسین بٹ کی صورت میں وہ نم موجود ہے لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیں تا کہ خوبصورت محافل کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔
سیرت سٹڈی سینٹر کے جنرل سکرٹری پرویز احمد خان کا کہنا تھا کہ جو کام سیرت سٹڈی سینٹر کر رہا ہے اسی کام کا بیڑا مجلسِ قلندانِ اقبال نے بھی اٹھا یا ہوا ہے ۔ہم انھیں اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔آج کی شام میں شعرا نے جو کلام پڑھا ہے وہ عالمی معیار سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ عبدالشکور مرزا کی نظامت بھی اعلی معیار کی ہے ۔ہمارے معاشرے کو اسی طرح کی ا دبی محافل اور جذبوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہم محبت اور بھائی چارے کے پیغام کو عام کر سکیں۔شعرو ادب کا انعقاد ہو گا تو امن ہو گا محبت ہو گی اور ہمیں اس وقت اسی چیز کی اشد ضرورت ہے۔خالد لطیف کا کہنا تھا کہ آج کی خوبصور ت شام نئے دور کا آغاز ہے۔مجھے امید ہے کہ قلندرانِ اقبال شہرِ اقبال میں دھمالی کیفیت ضرور پیدا کریں گئے۔
اضمالی کیفیت کا دور گزر چکا ہے اور اب ہمیں نئے جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور اس نئے دور کیلئے طارق حسین بٹ کی صورت میں ایک ایسی شخصیت ہمارے سامنے ہے جس کے خون میں شعرو ادب سے محبت رچی بسی ہے۔،۔ اس موقعہ پر ریڈیو ایف ایم ١٠١ کے ڈی جے فرخان خان اور سٹیج اور ٹی وی کے مشہور آر ٹسٹ طارق نیازی نے بھی خطاب کیا اور ادب کی راہ میں حائل مشکلات سے حاضرین کوآگاہ کیا۔فرخان خان نے ریڈیو پاکستان کی جانب سے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔وہ شعرو سخن کی محفلوں میں جس طرح دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ہمارے لئے باعث طما نیت ہے۔،۔
تقریب کے میزبان طارق حسین بٹ شان نے اس موقعہ پراپنے خطاب میں ادبی محافل کے انعقاد کو پوری تندہی اور لگن سے جاری رکھنے کا عہد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ شعرو ادب کی محافل ہمارے موجودہ رویوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔انھوں نے ١٤ اگست کو جشنِ آزادی اور نو نومبر کو یومِ اقبال جیسے اہم پروگر ا موں کا اعلان بھی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ مجلسِ قلندرانِ اقبال نے پاکستانیت کے حوالے سے جس فکری سفر کا آغاز کیا ہے اسے جاری و ساری رکھا جائیگا۔
انھوں نے کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر اپنے دوست عبدلشکور مرزا، صغیر احمد قریشی اور تصور ناز بٹ (بائو بٹ) کی کھل کر تعریف کی ۔انھوں نے کہا کہ اگر ندیم عبداللہ مشاعرے کیلئے ہمیں اپنے ہال کی سہولیات فراہم نہ کرتے تو شائد آج کی یہ شام اتنے تزک و احتشام کے ساتھ انعقاد پذیر نہیں ہو سکتی تھی ۔میں ان کے اس تعاون پر ان کا تہہِ دل سے مشکور ہوں۔حاضرین کی اتنی بڑی تعداد میں عید ملن مشاعرے میں شرکت میرا حوصلہ بڑھا رہی ہے لہذا میں ان سب کا انتہائی مشکور و ممنون ہوں۔،۔