تحریر: حفیظ خٹک قائد اعظم محد علی جناح اس دنیا میں ایک ایسے ملک کے بنانے والے عظیم انسان ، قائد ، پہلے صدرہیں جن کو دنیا کبھی بھی بھلا نہیں سکتی ۔ بغیر جنگ کے جس نے مسلمانوں کیلئے اسلام کے نام پر ایسا خطہ حاصل کیا کہ جہاں پر مسلمان ، اس نظام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذاریں گے۔ اس ملک کی تعمیر میں بیش بہا قربانیوں دیں گئیں۔ ہجرتیں ہوئیں، مسلمان اپنا مال و جائدادسب چھوڑ کر اس خطہ زمیں کی جانب آئے ۔ قائد اعظم کے پاکستان بنانے کے دن 14 اگست کو پوری قوم ہی نہیں پوری امت مسلمہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے ، اس روز اس بات کا بھی عہد کیا جاتا ہے کہ پاکستان جن مقاصد کیلئے حاصل ہوا انہیںپوراکرنے کی پوری کوشش کی جائیگی ۔ اس عزم کو پورا کیا جائیگا اور جس کیلئے لاکھوں شہادتیں ہوئیں اور قربانیاں دی گئیں ۔ ملک کی تاریخ میں اس ایک دن کے ساتھ کئی دیگر ایام کو بھی نہایت احترام کے ساتھ منایاجاتا ہے ۔
انہی دنوں میں ایک دن قائد اعظم کا یوم پیدائش کا دن بھی ہے یہ دن 25 دسمبر کا دن ہے اس دن کو پوری قوم نہایت شان و شوکت کے ساتھ مناتی ہے ۔ قائد کی باتیں ہوتیں ہیں ان کی محنتوں اور قربانیوں کی باتیں یاد دلائی جاتی ہیں اور ان مقاصد کو رنگ دینے کے قصے بھی یاد دلانے کے ساتھ پورے کرنے کے عہد کئے جاتے ہیں ۔ اسی عظیم قائد کے اقوال پر عمل پیرا ملک کے ہزاروں لاکھوں جوان ہیں جن میں مرد بھی اور خواتین سبھی اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بناے کیلئے قائد کے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے انتھک محنت کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اپنی زندگیوں کو قربان تک کردیتے ہیں ۔ قائد کے اس پیدائش کے دن پر جہاں قائد کی باتیں کی جاتی ہیں وہاں پر ان ہستیوں کا ذکر بھی ازحد ضروری ہے کہ جنہوں نے قائد کے فرمانوں پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو قربان کیا اورتاریخ میں امر ہوئے۔ ان میں مرد و خواتیں سبھی شامل ہیں۔
Arfh Karim
انہی شہداء میں آج دو خواتین شہداء کا ذکر ہے اور ایک غازی کا ۔ شہداء میں پہلا نام ارفہ کریم کا آتا ہے جنکی خدمات اور کارنامے قوم کیلئے باعث فخر ہیں ، ان کے بعد حال ہی میں پاک فضائیہ کی خاتوں شہید پائلٹ مریم مختیار ہیں ۔ ان کے بعد ایک غازی ہیں جنہیں ناکردہ گناہوں کی سزا امریکہ نے دے رکھی ہے ۔ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جنہوں نے اپنی زندگی میں اس ملک کے اندر علمی انقلاب لانے کی باتیں کیں اور تعلیمی نظام مرتب کیا ۔ لیکن انہیں بھی مذموم مقاصد کے تخت سازشوں کے ذریعے پابند سلاسل کر دیا گیا۔
قوم کی تین بیٹیاں مریم مختیار ، ارفہ کریم اور عافیہ صدیقی کا جب بھی نا سامنے آتا ہے تو دل و دماغ کی کیفیت کچھ عجب سی ہوجاتی ہے، ارفہ کریم وہ ارفہ جس نے کم عمری میںکمپیوٹر کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر اپنے نام کے ساتھ ملک و قوم کا نام بھی روشن کیا ، ارفہ کی طبعی موت بچپن میں ہی ہوگئی ۔ کمپیوٹر انڈسٹری کے ممتاز شخصیات نے پاکستان آکر ان کے والدین سے خصوصی ملاقات میں افسوس کا اظہار کیا۔ ارفہ کریم کا ذکر آج بھی ملک کے طلبہ کے سامنے کیا جاتا ہے جسے سن کر طلبہ میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ بڑھتا ہے۔ حال ہی میں پاک فضائیہ کے طیارے ایف 7 کی تربیتی پرواز کے دوران فنی خرابی کے باعث طیارہ گر گیا جس سے اس طیارے کی پائلیٹ مریم مختیار شہید اور ان کا سپروائزر ثاقب عباسی شدید زخمی ہوگیا۔ یہ سانحہ میانوالی اور گجرا ت کے قریب پیش آیا اورملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا جس میں خاتون پائلٹ شہید ہوئیں۔ مریم کی شہادت پر اس کے والدین کے حوصلے کا مظاپرہ کرتے ہوئے شہادت پر فخر کا اظہار کیا ۔اس واقعے کے بعد سے مریم مختیار کا رذکر کئی روز تک جاری رہا اس کے ساتھ ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے کارہائے نمایاں کو درسی کتب میں بھی شامل کرکے انہیں تاریخ کا روشن باب قرار دیا جائیگا۔
Mariam Mukhtar
ارفہ اور مریم کے واقعات پر ملک کی حکومت اور عوام دونوں کے جذبات یکساں رہے۔ دونوں موقعوں پر جذباتی مناظر بھی سامنے آئے ، حکومتی اکابرین نے دونوں کی نماز جنازہ میں ناصرف شرکت کی بلکہ متعدد بار ان کے گھر والوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے کارناموں کو اچھے لفظوں میں یاد کیا ۔ ان رہنمائوں کی طرح ملکی عوام بھی ارفہ اور مریم کے کرداروں کی تہہ دل سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جس محفل میں ارفہ کریم کا ذکر ہوتاہے وہاں شرکا ء مجلس کی نگاہیں باعث عزت جھک جاتی ہیں۔ قوم کی یہ دو بیٹیاں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اک مقام تک پہنچیں ، ارفہ نے کم عمری میں کمپیوٹر کے شعبے میں اپنی خدمات کے باعث کمپیوٹر کی تاریخ سمیت ملک کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئیں ۔ جبکہ مریم مختیار نے اپنی صلاحیتوں کے سبب ملک کے دفاع کیلئے جنگی جہاز کو چلانا سیکھا اور اس عمل کے دوران ہی ان شہادت ہوگئی ۔
ملک کے شہداء کا جب ذکر ہوتا ہے تو انہی میں ایک نام راشد منہاس کا بھی لازما ہوتا ہے جنہوں نے ملک دشمن سرگرمی کو روکنے اور ملک کے دفاع کیلئے اپنے طیارے کا رخ زمین کی جانب کیا اور اپنی ملکی حدود میں جام شادت نوش کیا ۔ پاک فضائیہ کیلئے راشد منہاس کے بعد ایک خاتون پائلٹ کی شہادت سے ان کے وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر پائلٹوں کے جذبہ شہادت میں بھی اضافہ ہوگا اور بہترین انداز میں اپنی خدمات کے ذریعے ملکی دفاع نظام کو مستحکم کریں گے۔
Aafia Siddiqui
گے۔ قوم کی بیٹیوں کا جب ذکر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ایک نام ازخود سامنے آجاتا ہے ۔ یہ نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے ، عافیہ صدیقی ، جس کے برزگوں نے اس ملک کے قیام میں بیش بہا قربانیاں دیںاور قیام کے بعد ملک کی ترقی میں اپنی خدمات کے ذریعے نمایاں کردار ادا کیا۔ قوم کی اس بیٹی کا جب ذکر سامنے آتا ہے تو اس سمعے کیفیت ہر محب وطن کی ناقابل بیاں ہوتی ہے ۔ اس کے سامنے ایک بے بس بہن اور بیٹی کوسوں دور ناکردہ گناہوں کی سزا اک قید ک کی صورت میں گذارتی سبھی کو یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ 18 کڑور عوام اور اس سے بھی بڑھ کر پوری امت مسلمہ سب مل کر بھی ایک مظلوم بہن و بیٹی کو دشمن کی قید سے آزاد نہیں کرواسکی۔ آخر کیوں ؟اس کیوں کا جواب وہ قوم کی بیٹی بلکہ اس امت مسلمہ کی بیٹی اور اس کے بچے ، اس کی بہن اور ماں اس ملک کے حکمرانوں سے ،ان سے بھی بڑھ کر 55سے زائد آزاد مسلم حکومتوں کے رہنمائوں سے اس سوال کا جواب مانگتی ہیں، یہ سب ان معصوموں کو کیا جواب دیں گے یہاں اس دنیا میں تو انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سبھی اپنے تئیں الٹے سیدھے جواب دیکر اپنی جان چھڑالیں گے لیکن سب آخر خدا کے سامنے اس بات کا کیا جواب دیں گے؟؟؟
ارفہ کریم اور مریم مختیار کا جب بھی ذکر ہو وہ ذکر عافیہ کے تذکرے کے بغیر ناممکن ہے ۔ ارفہ ، مریم اور ان ہی جیسی ان گنت اس قوم کی بیٹیا ں اور بہنیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں قربان کردیں۔ ان کا نام ان کے کارنامے بھی اس کہیں نظر نہیں آتے خود کو اس ملک و معاشرے کا چوتھا ستون کہنے والا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا شعبہ ابلاغ بھی ایسے کرداروں کو دیکھانے میں بسا اوقات اپنا فرض پورا نہیں کرتا اکثر و بیشتر وہ ان کرداروں کو سامنے اچھے الفاظ میں لیکر آتا ہے جن سے ان کیاپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ ان اخبار و رسائل ، ٹی وی و ریڈیو سمیت سوشل میڈیا کو بھی اپنے جوابات کا تعین کر لینا چاہئے ، انہیں بھی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اہل خانہ کو کیا جواب دینا ہے اور اس سے آگے ایک اور جہاں میں کہ جس کا کوئی اختتام نہیں اس میں مثبت نتائج کیلئے کیا کردار ادا کرنا ہے اور وہاں اس ذات عظیم کو عافیہ کے معاملے پر کیا جواب دینا ہے۔ مریم مختیار اور ارفہ کریم نہایت قابل عزت سہی تاہم عافیہ صدیقی کی عزت بھی کسی سے کم نہیں ، اس کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والی اس کی معصوم بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی کسی سے کم نہیں جو تنہا چلی تھی اپنی بہن کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے ۔
United States
ہاں وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو قوم کی وہ بیٹی ہیں جن کا شمار اس ملک کی بہترین نیورولوجسٹ میں ہوتا ہے وہ شمار اس ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی بہترین ڈاکٹروں میں وہ بھی مانی جاتی ہیں انہوں نے اپنی بہن کو امریکہ کی قید سے نکالنے کیلئے اپنی زندگی کو لگا دیا ہے ۔ کبھی ملک کے صدر سے کبھی وزیراعظم سے کبھی کسی وزیر سے تو کبھی کسی سیاسی و مذہبی رہنما سے ملتی ہیں اور اپنی بہن کی رہائی کیلئے عملی اقدام اٹھانے کی بات کرتی ہیں ۔ برسوں سے عافیہ کے بچوں کو پال رہی رہیں ان کے ساتھ اپنی بیمار والدہ کی بھی دیکھ بال میں مگن ہیں لیکن ان تمام باتوں اور دیگر مسائل کے باوجود بھی اپنی بہن اور اس قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے سرگرداں ہیں۔ اپنے ساتھ چلنے والوں کی ہمت بڑھاتی ہیں انہیں مایوس نہیں ہونے دیتی اور بارہا یہ بات کرتی ہیں کہ بہن کی رہائی جو ایک فرض بھی اور ایک قرض بھی ، اس فرض اور قرض کو ادا کرنے کیلئے ہم نے اپنی کوشش کرنی ہیں ، ان کاوشوں کے نتائج رب العلمین کے ہاتھ میں ہیں اور وہ جب چاہے گا عافیہ کو آزادی مل جائیگی۔ اس لئے ہم کوشش والا اپنا کام کرتے رہیں گے اور اچھے و مثبت نتائج کیلئے اللہ کی جانب دیکھتے رہیں گے۔ قوم کی وہ بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی قوم کی نہیں اس امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے سرگرداں ہیں ان کا ساتھ ایک عام ملکی دے یا اسی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیر و رہنمادیں ۔ انہوں نے بحرحال اپنا کام کرنا ہے۔ ملک کی تاریخ میں ان کا نام سنہرے لفظوں میں لکھا جائیگا۔
رہا سوال سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ، این جی اووز کا تو انہیں اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ انہیں ایسا طرز عمل قطعی نہیں اپنانا چاہئے جیسا گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور امیر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے گذشتہ دنوں اپنایا ۔ دونوں رہنمابلدیاتی انتخابات جیتنے کیلئے ایک ساتھ شہر قائد کے ایئر پورٹ آئے اور ساراوہاں سے مزار قائد تک گئے اس کے بعد کا اگلا روز بھی سارا شہر انہوں نے شہر میں عوام کے درمیان گذارا قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کے گھر کے قریب سے گذرے لیکن انہوں نے گھر جانے کی ان والدہ اور بچوں سے ملنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اپنی تقریروں میں بھی بلدیاتی انتخابات جیتنے کی باتیں وہ اور سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کی طرح کرتے رہے لیکن عافیہ کو لانے کی باتیں نہیں کیں ۔ رہے حکمراں جماعت کی بات تو نوازشریف صاحب کا ذکر اس معاملے میں نہیں کیا جاسکتا ان کا ذکر تو وعدوں کو پورا نہ کرنے کے حوالے سے کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے بارہا عافیہ کے اہل خانہ سے اور پوری قوم سے وعدے کئے کہ وہی عافیہ کو امریکی قید سے راہئی دلوائیں گے لیکن ان کی یہ باتیں سیاستدانوں کی باتیں ہی اب تک ثابت ہوئیں ہیں۔
دسمبر کا ماہ جو کہ ملکی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے اسی دسمبر میں انسانی حقوق کا عالمی دن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منایاجاتا ہے اس دسمبر میں اقوام متحدہ کو بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے امریکہ کے اس ظالمانہ اقدام پر اب تک خاموشی کیوں کر اختیار کر رکھی ہے ۔ انہوں نے انسانی حقوق کیلئے عافیہ کو اب رہاکیوں نہیں کیا ۔ اس کے ساتھ ہی قوم کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ آخر کب وہ عافیہ کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کریں گے ۔ عمران خان ، بلاول بھٹو و سراج الحق و دیگر سبھی سیاستدانوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کب مل کر قوم کی اس بیٹی کیلئے یکجہتی کا مظاہر ہ کریں گے اور اسے آزادی اور رہائی دلوا کر وطن عزیز لیکر آئیں گے۔ نہیں بھولناچاہئے کہ قوم کی بیٹی کی رہائی ایک فرض بھی ہے اور قرض بھی۔